اختر مینگل کو کوئٹہ میں داخلے سے روکا گیا، بلوچستان بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال اور دھرنوں کا اعلان-
بلوچستان میں ایک بار پھر سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے۔
اختر مینگل نے واضح اور دوٹوک انداز میں اعلان کیا ہے کہ جب تک انہیں اور ان کے کارکنان کو کوئٹہ کی طرف لانگ مارچ کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی، لکپاس پر دھرنا جاری رہے گا — چاہے وہ دس دن لگیں یا پورا مہینہ۔
یہ کوئی وقتی احتجاج نہیں بلکہ ریاستی جبر کے خلاف ایک مسلسل جدوجہد کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
مزید برآں، بی این پی نے بلوچستان بھر میں شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی کال دے دی ہے۔ پارٹی قیادت نے اپنے کارکنان کو ہدایت دی ہے کہ جس مقام پر وہ موجود ہیں، وہیں دھرنا شروع کریں۔
سردار اختر مینگل، جو بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ ہیں، کو کوئٹہ میں داخلے سے روک دیا گیا یہ محض ایک فرد کا سفر نہیں تھا، بلکہ ایک سیاسی علامت کی پیش قدمی تھی جسے ریاستی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ حکمتِ عملی ظاہر کرتی ہے کہ پارٹی نے زمینی حقائق کے مطابق سیاسی مزاحمت کو مقامی سطح پر منظم کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔
اختر مینگل نے ریاستی اداروں اور صوبائی حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ اگر کسی کارکن کو نقصان پہنچا تو اس کی مکمل ذمہ داری ان پر عائد ہوگی۔ ان کا یہ بیان نہ صرف ایک احتجاجی اعلان ہے بلکہ ریاستی پالیسیوں پر ایک چبھتا ہوا سوال بھی۔
یہ واقعہ ایک بڑی تصویر کی عکاسی کرتا ہے — جمہوریت کے نام پر قائم سیاسی نظام میں، جب اپوزیشن کو آواز بلند کرنے کی آزادی نہ ہو، تو ایسے ہی دھرنے، مارچ، اور ہڑتالیں جنم لیتی ہیں۔
جمہوریت صرف انتخابات کا نام نہیں، بلکہ اختلافِ رائے کی آزادی اور احتجاج کے حق کی ضمانت بھی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس معاملے پر کیا موقف اپناتی ہے کیا یہ سیاسی بحران مزید گہرا ہوگا یا مذاکرات کی کوئی سبیل نکلے گی؟
بلوچستان کا سیاسی منظرنامہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ عوام، میڈیا، اور ریاستی ادارے— سب کی نظریں اب اختر مینگل اور بی این پی کی آئندہ حکمت عملی پر مرکوز ہیں۔
اختر مینگل نے واضح اور دوٹوک انداز میں اعلان کیا ہے کہ جب تک انہیں اور ان کے کارکنان کو کوئٹہ کی طرف لانگ مارچ کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی، لکپاس پر دھرنا جاری رہے گا — چاہے وہ دس دن لگیں یا پورا مہینہ۔
یہ کوئی وقتی احتجاج نہیں بلکہ ریاستی جبر کے خلاف ایک مسلسل جدوجہد کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
مزید برآں، بی این پی نے بلوچستان بھر میں شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی کال دے دی ہے۔ پارٹی قیادت نے اپنے کارکنان کو ہدایت دی ہے کہ جس مقام پر وہ موجود ہیں، وہیں دھرنا شروع کریں۔
سردار اختر مینگل، جو بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ ہیں، کو کوئٹہ میں داخلے سے روک دیا گیا یہ محض ایک فرد کا سفر نہیں تھا، بلکہ ایک سیاسی علامت کی پیش قدمی تھی جسے ریاستی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ حکمتِ عملی ظاہر کرتی ہے کہ پارٹی نے زمینی حقائق کے مطابق سیاسی مزاحمت کو مقامی سطح پر منظم کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔
اختر مینگل نے ریاستی اداروں اور صوبائی حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ اگر کسی کارکن کو نقصان پہنچا تو اس کی مکمل ذمہ داری ان پر عائد ہوگی۔ ان کا یہ بیان نہ صرف ایک احتجاجی اعلان ہے بلکہ ریاستی پالیسیوں پر ایک چبھتا ہوا سوال بھی۔
یہ واقعہ ایک بڑی تصویر کی عکاسی کرتا ہے — جمہوریت کے نام پر قائم سیاسی نظام میں، جب اپوزیشن کو آواز بلند کرنے کی آزادی نہ ہو، تو ایسے ہی دھرنے، مارچ، اور ہڑتالیں جنم لیتی ہیں۔
جمہوریت صرف انتخابات کا نام نہیں، بلکہ اختلافِ رائے کی آزادی اور احتجاج کے حق کی ضمانت بھی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس معاملے پر کیا موقف اپناتی ہے کیا یہ سیاسی بحران مزید گہرا ہوگا یا مذاکرات کی کوئی سبیل نکلے گی؟
بلوچستان کا سیاسی منظرنامہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ عوام، میڈیا، اور ریاستی ادارے— سب کی نظریں اب اختر مینگل اور بی این پی کی آئندہ حکمت عملی پر مرکوز ہیں۔
جمہوریت کے تحفظ کے لیے اختلاف رائے کو جگہ دینا ہوگی، ورنہ سیاست کے ساتھ ساتھ ریاست پر بھی سوالات اٹھتے رہیں گے۔
0 تبصرے