سرہ ڈاکئی سانحہ: بلوچستان میں دہشتگردی کا نیا زخم اور سیکیورٹی نظام پر سوالیہ نشان

Ticker

8/recent/ticker-posts

سرہ ڈاکئی سانحہ: بلوچستان میں دہشتگردی کا نیا زخم اور سیکیورٹی نظام پر سوالیہ نشان

 سرہ ڈاکئی، بلوچستان: کوچز کے مسافروں کا اغوا اور قتل — ایک دہشتگردی کا المناک واقعہ

تاریخ: 12 جولائی 2025 
تحریر : ملک شعیب علی اعوان


شہداء کے تابوت لوڈر پر پنجاب روانہ

بلوچستان کے ژوب اور لورالائی کے سرحدی علاقے سرہ ڈاکئی (Sur-Dakai) میں 10 جولائی 2025 کی شب ایک دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا، جس میں نامعلوم مسلح افراد نے دو پنجاب جانے والی مسافر کوچز کو روکا، کم از کم 9 مسافروں کو اغوا کیا اور بعد میں قتل کر کے لاشیں پھینک دیں۔


تفصیلات:


مقامِ واقعہ: سرہ ڈاکئی، ژوب-لورالائی سرحد (Musakhail-Makhtar اور Khajuri ہائی وے کے درمیان) تعدادِ مقتولین: 9

شناخت شدہ افراد: 7 (لودھراں، ڈی جی خان، گجرات، اٹک، خانیوال اور گوجرانوالہ کے رہائشی)

دو مسافروں کی شناخت نہیں ہو سکی کیونکہ ان کے شناختی دستاویزات مبینہ طور پر دہشتگردوں نے ساتھ لے لیے۔

ذمہ داری کی قبولیت:

حملے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ (BLF) نے قبول کی۔

ترجمان نے ہائی وے بلاک کر کے لوگوں کو شناخت کے بعد قتل کرنے کا دعویٰ کیا۔

ریاستی مؤقف اور ردِعمل:

صدر مملکت آصف علی زرداری:

> "یہ بربریت فتنہ الہند کی پاکستان میں خون بہانے کی سازش کا حصہ ہے… ہم ان کے تمام نیٹ ورکس کو ختم کریں گے۔"


وزیراعظم شہباز شریف:

> "ہم معصوم لوگوں کے خون کا حساب لیں گے، دہشتگردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔"

وزیر داخلہ محسن نقوی:

> "ہم بھارتی سرپرستی میں کام کرنے والے دہشتگردوں کو ختم کر کے دم لیں گے۔"

وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی:

> "یہ کھلی دہشتگردی ہے، پاکستانی شناخت پر قتل ناقابلِ معافی جرم ہے۔

بلوچستان دشمنوں کا قبرستان بنے گا 

لاشوں کی واپسی:

اسسٹنٹ کمشنر نوید عالم کے مطابق:

> "لاشیں سخی سرور، ڈیرہ غازی خان میں سیاسی ایجنٹ کے حوالے کی گئیں تاکہ اہل خانہ تک پہنچائی جا سکیں۔"

تجزیہ:

یہ واقعہ بلوچستان میں جاری بدامنی کی نئی لہر کا واضح اشارہ ہے، جہاں شدت پسند گروہ شناخت کی بنیاد پر عام شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ایسے حملے نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہیں بلکہ پاکستان کی داخلی سالمیت پر بھی حملہ ہیں۔

اہم نکات:

بلوچستان میں بین الاضلاعی ہائی ویز پر عام شہریوں کو شناخت کی بنیاد پر قتل کیا جانا ایک خطرناک رحجان بنتا جا رہا ہے۔

حکومت کو ہائی وے سیکیورٹی، ٹرانسپورٹ پروٹوکول، اور مقامی انٹیلیجنس نیٹ ورک کو مضبوط بنانے کی فوری ضرورت ہے۔

ایسے واقعات بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے سیکیورٹی چیلنجز کو اجاگر کرتے ہیں۔

بلوچستان میں پرامن شہریوں کے خلاف دہشتگردی کے یہ واقعات ناقابلِ برداشت ہیں۔ ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف ان حملوں کا سدباب کریں بلکہ متاثرہ خاندانوں کو مکمل انصاف فراہم کریں۔

ایسے واقعات قومی یکجہتی اور عوامی حمایت کے ذریعے ہی ختم کیے جا سکتے ہیں۔

تجزیہ: خاموشی کے بعد اچانک خون — ریاستی سیکیورٹی پر سوالیہ نشان؟

بلوچستان میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، مگر ہر بار ایک جیسے سوالات جنم لیتے ہیں — اور ہر بار ان سوالات کے جواب مصلحت کی چادر میں لپیٹ دیے جاتے ہیں۔


کیا دو ماہ کی "خاموشی" کا مطلب یہ ہے کہ دہشتگرد تنظیمیں نئی حکمت عملی یا ہدف طے کر رہی تھیں — اور ہماری ایجنسیاں لاعلم تھیں؟


قومی شاہراہیں، خاص طور پر ژوب، لورالائی، موسیٰ خیل اور مکران جیسے حساس علاقوں میں ہر دس کلومیٹر کے بعد ایف سی، پولیس یا لیویز کی چیک پوسٹیں موجود ہیں،

تو پھر دو مسافر کوچز کو روک کر مسافروں کو شناختی بنیاد پر اغوا اور قتل کر دینا کوئی عام واقعہ نہیں — یہ ایک منظم ناکامی ہے۔


کیا سیکیورٹی اداروں کے درمیان رابطے کا فقدان ہے؟ یا پھر ایجنسیوں کی توجہ کسی اور سمت مبذول ہے جبکہ عوام غیر محفوظ ہو چکے ہیں؟

کیا ہمیں خود سے یہ سوال نہیں کرنا چاہیے؟

> کہ جب "سیکیورٹی ریاست" ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے تو پھر ایسے واقعات کیوں ریاست کی رٹ کو چیلنج کر لیتے ہیں؟

یہ سانحہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ بندوق اور وردی صرف خوف پیدا کرنے کا ذریعہ نہیں، بلکہ عوام کو تحفظ دینے کی ذمہ داری کا تقاضا کرتی ہے۔

اگر بلوچستان کے عام شہری — جو روزگار، تعلیم یا علاج کے لیے سفر کرتے ہیں — انہیں بھی راستے میں اتار کر مارا جا رہا ہے، تو پھر

سیکیورٹی چیک پوسٹیں کس مقصد کے لیے قائم ہیں؟

یہ صرف دہشتگردی نہیں — یہ سیکیورٹی نظام پر عدم اعتماد ہے۔

ریاست کو اب ردِعمل کی بجائے پیشگی حکمت عملی اپنانا ہو گی،

اور ہر اس ادارے سے جواب طلبی ہونی چاہیے جو بلوچستان کے عوام کے نام پر فنڈ، اختیارات اور اسلحہ لے رہا ہے مگر عوام بے یار و مددگار ہیں۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے