سردار اختر مینگل کا کوئٹہ کی جانب لانگ مارچ گرفتار خواتین کی رہائی کے مطالبے پر احتجاج

سردار اختر جان مینگل کا آج کوئٹہ کی طرف دوبارہ لانگ مارچ کا اعلان

لکپاس دھرنا سے خطاب:
سردار اختر مینگل کا لانگ مارچ

سردار اختر جان مینگل نے لکپاس دھرنا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچوں کو دہشت گرد کہنے والوں کو ان ماؤں کی چیخ و پکار نظر نہیں آتی۔ ان کے پیاروں کو لاپتہ کرنے اور ظلم و جبر کرنے پر کسی کو رحم نہیں آیا۔ بہن کا بھائی، ماں کا بیٹا، یا کسی کا باپ لاپتہ کیا گیا، پھر بھی گناہگار بلوچ ہے۔

ظلم اور جبر کی مذمت:
انہوں نے کہا کہ دہشت کے ماحول میں پیدا ہونے اور بڑے ہونے والے افراد کیسا ہوں گے؟ سب جانتے ہیں کہ لاپتہ کرنے والے اغواء کار کون ہیں۔ ماؤں کے پیاروں کو لاپتہ کرنے پر بددعائیں ضرور ملیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو اسلام اور کلمہ کے نام پر بنایا گیا تھا مگر اسلامی ملک میں مسجد، امام بارگاہ اور چرچ محفوظ نہیں۔ بنگالیوں کے ساتھ بھی ایسا ہی رویہ اپنایا گیا تھا، اور ان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو اسی طرح سڑکوں پر گھسیٹا گیا تھا۔

بلوچ خواتین کی گرفتاری کی مذمت:
سردار اختر مینگل نے کہا کہ بلوچستان میں خواتین کو گرفتار کیا جارہا ہے، جو ناقابل قبول اور ناقابل برداشت ہے۔ بلوچ نسل کشی کو اجاگر کرنے پر یہ کہا جاتا ہے کہ سیاست چمکائی جا رہی ہے، جبکہ اب مسئلہ بلوچوں کی ننگ و ناموس کا ہے۔ خواتین کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔

مذاکرات اور مطالبات:
انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے لیے ایک بےاختیار وفد آیا تھا، اور ہم نے انہیں دو دن کی مہلت دی ہے۔ سندھ حکومت نے سمی دین کو رہا کردیا ہے، مگر بےاختیار بلوچستان حکومت کہیں اور دیکھ رہی ہے۔

پاکستان کی بگڑتی صورتحال اور بلوچستان کا مستقبل:
حالیہ دنوں میں پاکستان کی مجموعی صورتحال بدترین ہوتی جا رہی ہے۔ معیشت کی گرتی ہوئی حالت، سیاسی عدم استحکام، اور انتظامی ناکامیاں ملک بھر میں مسائل پیدا کر رہی ہیں۔ بلوچستان کی صورتحال خاص طور پر سنگین ہے، جہاں مختلف علاقوں میں خندقیں کھودی جا رہی ہیں اور سیکیورٹی فورسز کی طرف سے سخت نگرانی کی جا رہی ہے۔

عوام میں حکومت کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ دھرنے، احتجاج اور لانگ مارچ جیسے اقدامات بلوچ عوام کے مطالبات کو اجاگر کرنے کے لیے جاری ہیں۔ حکومت کی جانب سے سنجیدہ اقدامات نہ کرنے اور مذاکرات میں بےاختیار وفود بھیجنے کی پالیسی سے عوام کی مایوسی میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔

اگر حکومت نے فوری طور پر مثبت اور سنجیدہ اقدامات نہیں کیے تو بلوچستان میں احتجاجی تحریک مزید شدت اختیار کر سکتی ہے۔ بلوچ عوام کی جانب سے حقوق اور انصاف کے لیے اٹھنے والی آوازوں کو دبانا ممکن نہیں ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ مسئلے کا دیرپا اور منصفانہ حل تلاش کرے تاکہ بلوچستان کے مسائل کا خاتمہ ہو سکے۔