آئی ایم ایف کی شرائط پاکستان کے نئے بجٹ پر کس طرح اثر انداز ہوں گی
آئی ایم ایف کی شرائط پاکستان کے نئے بجٹ پر کس طرح اثر انداز ہوں گی |
Balochistan voi news desk
کیا بجٹ آئی ایم ایف کی شرائط پر بنتا ہے؟
پاکستان کے اگلے مالی سال کا بجٹ آئی ایم ایف کے ساتھ ایک بڑے قرض پروگرام کے لیے جاری مذاکرات کے وقت میں پیش کیا جا رہا ہے۔آئی ایم ایف نے گذشتہ مہینے پاکستان سے متعلق جو رپورٹ جاری کی اس میں پاکستانی معیشت کے مخلتف شعبوں میں بہتری کے لیے تجاویز تھیں اور اس کے ساتھ مالی خسارے کو کم کرنے کے لیے اہداف کا تعین تھا۔
آئی ایم ایف پروگرام کی موجودگی اور شرائط میں کیا پاکستان ایک ایسا بجٹ پیش کر سکتا ہے جو پاکستان کی حکومت کی مرضی و منشا کے مطابق ہے۔پاکستان اور آئی ایم ایف پروگرام کے امور کی گذشتہ کئی سال سے رپورٹنگ کرنے والے سینیئر صحافی مہتاب حیدر نے اس سلسلے میں بتایا کہ کافی سال پہلے وہ سپیس ختم ہو چکی، جس میں پاکستان کے اکنامک منیجرز کچھ اپنی رائے بھی ڈالتے تھے۔
انھوں نے کہا کہ ’اس کا ثبوت ان معاشی اشاریوں سے ملتا ہے جو آئی ایم ایف کی جانب سے دیے جاتے ہیں اور اسے پاکستان کی حکومت کی جانب سے معاشی اہداف بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔انھوں نے اس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کی رپورٹ میں جو اعداد وشمار دیے گیے ہیں وہی پاکستان کے اگلے مالی سال کے اہداف ہوں گے۔
اس سلسلے میں جب آئی ایم ایف رپورٹ کا جائزہ لیا گیا تو پاکستان کے لیے آئی ایم ایف نے اگلے مالی سال کے لیے جی ڈی پی کے جو اعداد وشمار پیش کیے ان کے مطابق اس نے 3.5 فیصد سے بڑھنا اور ملک میں مہنگائی کی شرح 12.7 فیصد تک بڑھنے کا بتایا گیا دوسری جانب وفاقی حکومت کی پلان کوارڈینیشن کمیٹی کی جانب سے بھی گذشتہ دنوں اگلے مالی سال کے لیے ان ہی اہداف کی منظوری دی گئی۔
آئی ایم ایف پاکستان سے کیا چاہتا ہے ؟
’دوسرا وہ زری پالیسی کو سخت کرنے کا کہہ رہا ہے یعنی ملک میں شرح سود زیادہ ہو۔ اس لیے ملک میں مہنگائی کی شرح کم ہونے کے باوجود یہ کم نہیں ہو رہا اور اس کے ساتھ توانائی کے شعبے میں گردشی قرضے کے خاتمے کے لیے کہتا ہے۔‘آئی ایم ایف یہ مطالبات کیوں کررہا ہے اس کے بارے میں ماہر معیشت یوسف نذر نے بتایا جب کوئی قرض لیتا ہے تو لازمی طور پر اس کے ساتھ شرائط بھی ہوتی ہیں۔
آئی ایم ایف شرائط کی موجودگی میں کیا ملکی معیشت میں بہتری ممکن ہے؟
پاکستان کی معیشت کی شرح نمو گذشتہ دو مالی برسوں میں بہت کم رہی۔ گذشتہ مالی سال میں پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح 0.29 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی جو اس سے ایک سال قبل 6.18 پر موجود تھی۔اس سال پلاننگ کوارڈینیشن کمیٹی کے مطابق پاکستان کی جی ڈی پی شرح 2.6 فیصد تک رہے گی۔
پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح گذشتہ دو سال میں کافی سکڑ چکی جبکہ دوسری جانب ملکی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے مطابق ملک کی ایک تہائی آبادی خط غربت سے نیچے ہے۔ملکی برآمدات اور غیر ملکی سرمایہ کاری جمود کا شکار ہے تو دوسری جانب حکومت کو ملکی و غیر قرضوں کی آفر کے لیے زیادہ آمدنی چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ ’ہمیں لوگوں سے سچ بولنا ہو گا اور خوابوں کی دنیا سے باہر نکلنا ہوگا۔‘ ڈاکٹر عائشہ نے کہا کہ معیشت کو اس وقت سب سے زیادہ سٹرکچرل ریفارمز کی ضرورت ہے اور یہ مشکل کام ہے۔اس سلسلے میں آئی ایم ایف سے بات کرنی پڑے گی کہ وہ معقول اور قابل حاصل اہداف مقرر کرے۔ آئی ایم ایف کو تھوڑی لچک دکھانی چاہیے تاکہ ہم اہداف کو حاصل کرسکیں۔‘ آئی ایم ایف شرائط پر بنا بجٹ عام آدمی کو کیسے متاثر کرے گا؟
معیشت کے شعبے کے افراد آئی ایم ایف شرائط کے تحت بجٹ میں ایک عام فرد کے لیے مالی مشکلات دیکھتے ہیں۔مہتاب حیدر کا کہنا ہے کہ اس بجٹ سے عام آدمی کافی متاثر ہو سکتا ہے جس کی وجہ آئی ایم ایف کی جانب سے ٹیکسوں کی وصولی میں اضافے کا مطالبہ ہے، جو ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کے ذریعے پورا کیا جائے گا۔
انھوں نے نشاندہی کی کہ آئی ایم ایف شرائط کے تحت جنرل سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافہ ہو سکتا ہے جس کا مطلب ہے کہ چیزیں زیادہ مہنگی ہوں گی۔انھوں نے کہا کہ انرجی سیکٹر میں بجلی و گیس کے بل مزید بڑھ جائیں گے جو مہنگائی کے بوجھ تلے عوام کے لیے مزید مالی مشکلات پیدا کرے گا۔
ڈاکٹرعائشہ غوث پاشا نے کہا یہ صحیح ہے کہ لوگوں پر بوجھ بڑھے گا اس کے لیے حکومت کو ٹارگٹڈ پروگرام دینا چاہیے جس سے غریب طبقے کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔انھوں نے کہا کہ کوشش کرنی چاہیے کہ عام افراد سے زیادہ اشرافیہ پر بوجھ ڈالا جائے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’ایک قومی معاشی بحران بہرحال اس وقت ہے اور اس سے نکلنے کے لیے اصلاحات پر عمل کرنا ہو گا۔‘
0 تبصرے