لانگ مارچ کے بعد بریک پر چلی جاؤں گی کنٹینر تلے آ کر ہلاک ہونے والی صحافی صدف نعیم کون تھیں؟
پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے تیسرے روز کا اختتام ایک انتہائی افسوسناک خبر سے ہوا۔ نجی ٹی وی چینل سے وابستہ 35 سالہ رپورٹر اُس کنٹینر تلے آ کر ہلاک ہو گئیں جس پر عمران خان سمیت تحریک انصاف کی سینیئر قیادت سوار تھی۔
ریسکیو 1122 کے مطابق یہ واقعہ سادہوکی کے قریب پیش آیا۔ صدف نعیم کی ہلاکت کی خبر سامنے آنے کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے لانگ مارچ کے تیسرے روز کے سفر کے اختتام کا اعلان کر دیا ہے۔
35 سالہ صدف نعیم نے سنہ 2009 میں نجی ٹی وی ’چینل فائیو‘ میں شمولیت اختیار کی تھیں۔ وہ شادی شدہ تھیں اور انھوں نے پسماندگان میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی چھوڑی ہے۔
صدف کے ساتھ کام کرنے والے میڈیا ورکرز کے مطابق وہ ایک انتہائی محنتی اور پروفیشنل صحافی تھیں جو کسی بھی قسم کی مشکل کو اپنے کام کے آڑے نہیں آنے دیتی تھیں۔
اپنے چینل کے لیے وہ عموماً سیاسی جماعتوں اور سیاسی معاملات کی کوریج کرتی تھیں اور پنجاب اسمبلی کی کارروائی بھی باقاعدگی سے کور کرتی تھیں۔
نمائندہ بی بی سی ترہب اصغر نے جمعہ کے روز سابق وزیر اعظم عمران خان کا اُن کے کنٹینر پر انٹرویو کیا تھا اور اس موقع پر ان کی صدف سے آخری ملاقات ہوئی تھی۔ اسی طرح لانگ مارچ کے آغاز سے ایک روز قبل بھی وہ نمائندہ بی بی سی سے ملی تھیں اور ان کی ملاقاتوں کی تفصیل ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔
جمعہ کے روز بھی صدف اپنے چینل کے دیگر رپورٹرز کے ہمراہ عمران خان کے کنٹینر کے ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔
جب عمران خان کے انٹرویو کے غرض سے چند رپورٹرز کو کنٹینر پر بلایا گیا تو پی ٹی آئی رہنما مسرت چیمہ نے صدف کا ہاتھ پکڑ کر انھیں بھی کنٹینر پر بلا لیا، اس بات سے قطع نظر کہ ان کا نام رپورٹرز کی اُس لسٹ میں موجود نہیں تھا جنھیں اس روز عمران خان کے انٹرویو کرنے تھے۔
بعد ازاں مسرت چیمہ نے مجھے بتایا کہ صدف چونکہ ایک انتہائی محنتی رپورٹر ہے اس لیے انھیں اچھا نہیں لگا کہ وہ پیدل چلتی رہیں، اسی لیے انھوں نے صدف کو لسٹ میں نام نہ ہونے کے باوجود کنٹینر پر بلا لیا۔
ابھی تو لانگ مارچ چل رہا ہے، بس جیسے ہی یہ ختم ہو گا میں بریک پر چلی جاؤں گی‘
میرے دوبارہ دریافت کرنے پر صدف نے کہا ’میں بہت زیادہ تھک چکی ہوں، میں چاہتی ہوں کہ کچھ عرصے کے لیے صحافت چھوڑ دوں۔‘ اس کا یہ جواب میرے لیے حیران کر دینے والا تھا کیونکہ صدف کی پہچان ہی اپنے کام سے بے انتہا محبت تھی اور اس کے منھ سے یہ الفاظ سننا مجھے انتہائی عجیب لگا۔
ہم نے ہمیشہ فیلڈ رپورٹنگ میں دیکھا کہ اگر صبح چھ بجے کا کوئی ایونٹ ہے تو صدف تب بھی وہ وہاں کوریج کے لیے موجود ہوتی تھی اور اگر رات 12 بجے کا تو تب بھی۔ شاید وہ شہر کی واحد خاتون رپورٹر تھیں جو دن کے 24 گھنٹے اور ہفتے کے سات روز ڈیوٹی پر موجود ہوتی تھیں۔
اس کے بعد صدف نے خود ہی مجھ سے سوال پوچھا کہ ’تم ہی بتاؤ میں کیا کروں۔۔۔ صحافت کو پکا پکا خیرآباد کہہ دوں یا کچھ وقت کے لیے بریک لے لوں؟‘ اس سوال پر میں نے صدف کو مشورہ دیا کہ کچھ عرصے کی بریک لے لو اور دوبارہ جوائن کر لینا۔ تاہم اس پر صدف نے ان خدشات کا اظہار کیا کہ کہیں بریک لینے کے باعث انھیں دوبارہ نوکری حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
تاہم میرے دوبارہ بات کرنے پر صدف نے کہا کہ ’ابھی تو لانگ مارچ چل رہا ہے، بس جیسے ہی یہ ختم ہو گا تو میں بریک پر چلی جاؤں گی۔ اب نہیں ہوتا یہ مجھ سے، تم یقین کرو کہ میں بہت زیادہ تھک گئی ہوں۔‘
صدف کے بارے میں ایک بات بتاتی چلوں کہ اس کی شخصیت اتنی معصوم تھی کہ میں نے کبھی اس کے منھ کسی دوسرے شخص کی برائی نہیں سنی وہ ہمیشہ بس اپنے کام کی ہی بات کرتی تھی۔
وہ اپنا ظاہری حلیہ بھی فیلڈ صحافیوں جیسا ہی رکھتی تھی یعنی رف اینڈ ٹف اور ہر وقت ہر جگہ جانے کے لیے تیار، ایک ایسی صحافی جو اپنے ساتھ کے دیگر صحافیوں سے ہمیشہ ایک قدم آگے ہی رہتی تھی اور بعض اوقات اُس کی اِس اپروچ پر اس کا مذاق بھی اڑتا تھا مگر نہ اس مذاق کو وہ محسوس کرتی تھی اور نہ ہی کسی سے گلہ کرتی تھی۔
تاہم ایک چیز کا گلہ اس نے مجھ سے بارہا کیا کہ بطور ٹی وی رپورٹر اس پر کام کا پریشر بہت ہوتا ہے۔
لانگ مارچ کے پہلے ہی روز صدف نے عمران خان کے ساتھ اپنے چینل کے لیے گفتگو کی تھی اور آج اس کے ساتھ موجود دوستوں نے بتایا کہ وہ ایک اور انٹرویو حاصل کرنے کی غرض سے لگ بھگ دو کلومیٹر لانگ مارچ کے قافلے کے ساتھ پیدل چلی۔
صدف کی موت کس طرح ہوئی، کیا اس کا اپنا پیر پھسلا یا وہ دھکم پیل کا شکار ہوئی؟ یہ تو تفتیش کے بعد ہی پتہ چل سکے گا مگر ایک بات کنفرم ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے بریک پر جا چکی ہے۔
0 تبصرے