نوجوانوں میں خود کشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ معاشی مسائل یا ذہنی دباؤ؟
معاشی اور سماجی ماہرین خود کشی کے واقعات کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ مہنگائی، معاشی مسائل، وسائل کا مخصوص طبقات تک ارتکاز، ملازمتوں کے مواقع کم ہونے اور مجموعی اقتصادی صورتِ حال کو قرار دیتے ہیں۔
جان محمد روڈ کا رہائشی محمد سجاد جس کا تعلق جدون قبیلے سے تھا محمد سجاد ایک چھوٹے سے پیمانے پرد دودھ کا کاروبار کر رہا تھا ذرائع کی طرف سے بتایا گیا محمد سجاد ایک پڑھا لکھا نوجوان تھا کئی عرصے سے بے روزگار تھا مگر اپنے ساتھ جڑے بیوی بچوں کے پیٹ کو پالنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا تھا کاروبار نہ ہونے کی وجہ سے اور حالیہ مہنگائی اور اوپر سے سونے پہ سہاگہ کہ کہیں کسی سود خور کابھی قرضدار تھا۔
محمد سجاد جو دودھ کا کاروبار کرتا تھا کہیں کاروبار کے لین دین میں کسی سود خور شخص کے ساتھ پھنس گیا اور اپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ سجاد جدون جو جان محمد روڈ کا رہائشی تھا اس سود خور نظام کی وجہ سے خودکشی کرنے پر مجبور ہو گیا اور افسوس صد افسوس کہ ایک نوجوان اس نہج پر پہنچا صرف تین سے چار لاکھ روپے کے قرضے کی ادائیگی کی وجہ سے ایک عزت دار شخص اور کرے بھی کیا،
جب یہ سود خور اپ کے گھر کے دروازے بجانے لگیں تو ایک شریف النفس انسان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچتا محمد سجاد چار کمسن بچوں کا باپ تھا اور اپنے پیچھے چار کمسن بچے اور ایک بیوہ چھوڑ گیا محمد سجاد جس کی عمر صرف 36 سال تھی
اس سودی نظام کی سولی چڑھ گیا۔اور پھر وہ ایک ایسے شہر کا رہنے والا تھا جو شہر پہلے سے ہی لاوارث ہے جہاں ایک بہت بڑی ابادی پہلے ہی بے روزگاری سے لڑ رہی ہے مگر افسوس کہ اس شہر کا کوئی پرسان حال نہیں،
سودی نظام کے بارے میں حکومت کو جھنجھوڑنے کے لیے اب الفاظ نہیں ملتے اندازہ تو کریں کہ جس ملک میں ہر سال تمام اشرافیہ اس بات پر سیٹوں سے اترتی اور چڑھتی ہو کہ ائی ایم ایف سے قرضہ کیسے لیا جائے،
جہاں پاکستان کے چاروں پلر صرف اس بات کے لیے سر جوڑ کر بیٹھیں کہ اب کتنا قرضہ لیں اور پھر اس پہ کتنا سود دیں ایک قرضہ لیتا ہے اور سود دینے کے لیے دوسری حکومت اتی ہے پھر وہ قرضہ لیتی ہے پھر وہ پہلے والی دوبارہ ا جاتی ہے ایسے ملک میں ہم صوبائی سطح پر سود خوروں کے خلاف کیا مہم چلائیں گے ،
جس ملک میں وفاقی سطح پر صرف یہی کام ہو رہا ہو اس ملک میں صوبائی سطح پر اس کی روک تھام کیسے ممکن ہے افسوس صد افسوس۔
0 تبصرے