اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانے والے وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کو کن چیلنجز کا سامنا ہو گا؟
پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوارمیرسرفراز بگٹی بلوچستان کے بلامقابلہ وزیر اعلیٰ منتخب ہو گئے ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے مشترکہ امیدوار تھے۔
انھوں نے حالیہ عام انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی۔
میر سرفراز بگٹی کا شمار ان سیاست دانوں میں ہوتا ہے جو بلوچستان کی مخصوص صورتحال میں نہ صرف اسٹیبلشمنٹ کے بیانیے کے بھرپور حامی رہے ہیں بلکہ وہ اس کا بھرپور دفاع بھی کرتے رہے ہیں۔
بعض مبصرین کی یہ رائے ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے بیانیے کی حامی ہونے کی وجہ سے میر سرفراز بگٹی کو پارٹی کے جیالے اراکین اسمبلی کے مقابلے میں فوقیت حاصل ہوئی ہے۔ تاہم پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پارٹی میں کسی پرانے یا نئے جیالے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پارٹی نے جو فیصلہ کیا ہے ہم سب اس کے پابند ہیں۔
وفاق اور بلوچستان کے نگراں وزیر داخلہ کی حیثیت سے بلوچستان کی مخصوص صورتحال کے حوالے سے میر سرفراز بگٹی کا لہجہ انتہائی سخت رہا ہے تاہم وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے بعد ان کا لہجہ نرم تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی مذاکرات پر یقین رکھتی ہے اور اس نے مذاکرات کے ذریعے ہی ملکی مسائل کا حل نکالا ہے۔ مبصرین کی رائے میں بلوچستان جس شورش زدہ صورتجال سے دوچار ہے اس کے حوالے سے میر سرفراز بگٹی کو بہت سارے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
میر سرفراز بگٹی کون ہیں؟
میر سرفراز بگٹی 1981میں بگٹی قبیلے سے تعلق رکھنے والے ممتاز قبائلی و سیاسی رہنما میر غلام قادر بگٹی مرحوم کے ہاں پیدا ہوئے۔ میر سرفراز بگٹی نے لارنس کالج مری سے اپنی تعلیم مکمل کی۔
ان کے والد کا شمار بگٹی قبیلے کے سربراہ نواب محمد اکبر خان بگٹی کے سخت ترین مخالفین میں ہوتا تھا۔
میر غلام قادر بگٹی نے 1988 میں پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی تاہم 1999 میں نواز شریف کی دوسری حکومت کے خاتمے کے بعد جب سابق آمر پرویز مشرف نے بلوچستان میں فوجی آپریش کا آغاز کیا تو پیپلز پارٹی کی پالیسیوں کے برعکس وہ جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں کی حمایت کرتے رہے۔
میر سرفراز بگٹی نے سال 2008 میں پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر ڈیرہ بگٹی سے عام انتخابات میں حصہ لیا لیکن انھیں اپنے چچازاد بھائی میر طارق بگٹی کے مقابلے میں کامیابی نہیں ملی تھی۔
سنہ 2013 میں وہ پہلی بار آزاد حیثیت سے ڈیرہ بگٹی سے رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے تاہم بعد میں انھوں نے مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی تھی۔
انھوں نے 2013 میں بننے والی بلوچستان کی مخلوط حکومت میں وزیر داخلہ کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیے۔ 2018 میں میر سرفراز بگٹی نے نہ صرف بلوچستان عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کی بلکہ ان کا شمار اس پارٹی کے بنانے والے اہم لوگوں میں تھا۔
تاہم وہ 2018 کے عام انتخابات میں کامیاب نہیں ہوسکے لیکن وہ بلوچستان عوامی پارٹی سے سینیٹر منتخب ہو گئے۔
گذشتہ سال جب انوار الحق کاکڑ کی سرابراہی میں نگراں حکومت بنی تو میر سرفراز بگٹی کو اس میں نگراں وفاقی وزیر داخلہ کے طور پر شامل کیا گیا تاہم انھوں نے حالیہ انتخابات کے شیڈول کے اعلان سے چند گھنٹے قبل اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
انھوں نے عام انتخابات سے قبل ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور ڈیرہ بگٹی سے رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہو گئے۔
’پیپلز پارٹی میں شمولیت سے ہی پتہ چل گیا تھا کہ انھیں اہم عہدہ ملے گا‘
میر سرفراز بگٹی کا شمار ان سیاسی لوگوں میں ہوتا ہے جو بلوچستان کی صورتحال میں کھل کر اسٹیبلشمنٹ کے بیانیے کی حمایت کرتے رہے ہیں۔
سینیئر صحافی خلیل احمد کا کہنا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے الیکٹیبلز کی ایک بڑی تعداد نے عام انتخابات سے پہلے مسلم لیگ ن کا رخ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میر سرفراز بگٹی نے نواز لیگ میں شمولیت اختیار نہیں کی بلکہ انھوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔
ان کے مطابق ’جس دن انھوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی تو اس دن سے یہ کہا جا رہا تھا کہ آئندہ کی سیٹ اپ میں بلوچستان میں پیپلز پارٹی کا اہم کردار ہوگا اور پیپلز پارٹی میں میر سرفراز بگٹی کو اہم ذمہ داری سونپی جائے گی۔‘
سینیئر تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ جب میر سرفراز بگٹی پیپلز پارٹی میں گئے تو یہ سمجھا جارہا تھا کہ ان کے لیے ایک مضبوط لابی ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کی بلوچستان کے حوالے سے جو پالیسیاں ہیں ان کو فروغ دینے کے لیے پہلے بلوچستان عوامی پارٹی کا تجربہ کیا گیا جو کہ ناکام ہوا لیکن اب وہ کردار قومی دھارے کی جماعتوں کو دیا گیا ہے اور ان کی حکومت بنائی گئی اور اس کے ذریعے وہ اپنا کام کریں گے۔
’ابھی ان کو جیالا بنا رہا ہوں‘
دیگر صوبوں کے مقابلے میں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے نام کے اعلان میں بہت زیادہ تاخیر ہوئی ہے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان حکومت سازی کے فارمولے کے تحت بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کا عہدہ پیپلز پارٹی کو دیا گیا لیکن پیپلز پارٹی کی جانب سے اکثریت حاصل ہونے کے باوجود وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے نامزدگی میں تاخیر کی گئی۔
بعض مبصرین کے مطابق زیادہ تاخیر اس لیے ہوئی کہ پیپلز پارٹی بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر جیالا وزیر اعلیٰ لانا چاہتی تھی۔
شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ آصف زرداری صاحب یہ کہتے رہے ہیں کہ بلوچستان کا وزیر اعلیٰ بھی جیالا ہوگا لیکن اس حوالے سے پارٹی میں جن جیالوں کے وزیر اعلیٰ نامزد کیے جانے کے اندازے تھے وہ ویسے ثابت نہیں ہوئے۔
سینیئر صحافی عیسیٰ ترین کے مطابق پارٹی کے پرانے جیالے کے وزیر اعلیٰ نہ بننے پر پارٹی کے بہت سارے اراکین اسمبلی خوش نہیں ہیں اور کاغذات نامزدگی جمع کرنے کے موقع پر ان کے چہروں سے یہ تاثر بھی عیاں تھا۔
عیسیٰ ترین نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی نے جیالا وزیر اعلیٰ لانے کے حوالے سے اپنے دعوؤں کی نفی کی ہے۔‘
سرفراز بگٹی کے کاغذات نامزدگی جمع کرنے سے پہلے جب پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے میڈیا سے بات چیت کی تو ان سے باقاعدہ سوال کیا گیا کہ پارٹی نے کسی جیالے کو وزیر اعلیٰ کیوں نامزد نہیں کیا۔
اس سوال کے ساتھ ہی پارٹی کے رکن اسمبلی علی مدد جتک نے اپنے جیب سے پارٹی کے جھنڈے کا بیج نکالا اور اسے سرفراز بگٹی کے سینے پر لگاتے ہوئے کہا کہ ’ابھی ان کو جیالا بنا رہا ہوں۔‘
تاہم پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ میرسرفراز بگٹی کی نامزدگی پر پارٹی میں تحفظات ہیں۔
پیپلز پارٹی بلوچستان کے صدر چنگیز خان جمالی نے کہا کہ ہماری لیڈرشپ اور پارٹی نے جو فیصلہ کیا ہے ہم سب اس کے پابند ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پارٹی میں نئے اور پرانے جیالے کا کوئی مسئلہ نہیں ہم سب جیالا پن سے ہی خدمت کریں گے۔
بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اور پارٹی کے رہنما نواب ثناء اللہ زہری نے کہا کہ ہم نے پہلے ہی کہا تھا کہ پارٹی کی مرکزی قیادت جو بھی فیصلہ کرے گی وہ ہمیں قبول ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری اور ہمارے اتحادی مسلم لیگ ن کی میر سرفراز بگٹی کو مکمل حمایت حاصل ہے۔
میر سرفراز بگٹی کو کن بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا؟
بلوچستان میں نہ صرف انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کا مسئلہ ہے بلکہ اس کے گورننس سمیت دیگر بڑے مسائل بھی ہیں۔
تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں بہت بڑے چیلنجز ہیں اور اگر میر سرفراز بگٹی جارحانہ طرز عمل اختیار کریں گے تو ان کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’انھیں بہت زیادہ میانہ روی اختیار کرنا پڑے گی کیونکہ جو قوم پرست سیاسی جماعتیں ہیں وہ ان کے ساتھ اتحادی نہیں ہیں بلکہ قوم پرست اب باہر دھکیلے جاچکے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا یہاں جو عسکریت پسندی اور سکیورٹی کی صورتحال ہے اس کو بہتر کرنے کے لیے صرف آپریشن اور مارا ماری سے کام نہیں چلے گا۔ اس وقت ملکی معیشت کو دیکھیں اور ملکی حالات کو دیکھیں وہ سب دگرگوں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے اور اس مقصد کے لیے میر سرفراز بگٹی کو ان تمام بلوچ اور پشتون قوم پرست جماعتوں کی تعاون کی ضرورت پڑے گی جو کہ نیوٹرل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ نے پارلیمانی سیاست سے باہر لوگوں سے مفاہمت کے حوالے سے جو پیش رفت کی تھی اس کو آگے بڑھانا پڑے گا۔
انھوں نے بتایا کہ گورننس کا مسئلہ بھی بڑی حد تک خراب ہے جبکہ کرپشن بھی بلوچستان کے اہم مسائل میں سے ایک ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ نہ صرف سرفراز بگٹی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں بلکہ خود پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے لیے بھی چیلنج ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس طرح حالات کو بہتری کی طرف لے جائیں گے۔
تجزیہ کار سید علی شاہ کا کہنا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ بڑا حسّاس ہے۔ بلوچستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ قومی دھارے کی جماعتیں ہوں یا اسٹیبلشمنٹ وہ اس جانب زیادہ توجہ نہیں دیتی ہیں اور وہ بلوچستان کو زیادہ تر انتظامی طور پر ڈیل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’جو قوم پرست قوتیں ہیں انھیں میر سرفراز بگٹی کی نامزدگی کے حوالے سے خدشات اور تحفظات ہیں۔ تھوڑی دیر پہلے میری سرفراز بگٹی سے جو بات کی تو ان کا لہجہ نرم تھا لیکن ان کے حوالے سے قوم پرست قوتوں کے خدشات ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی والے یہ کہتے ہیں کہ آصف علی زرداری مفاہمت کے بادشاہ ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میر سرفراز بگٹی مفاہمت شروع کرتے ہیں یا نہیں۔
انھوں نے کہا کہ یہ وقت بتائے گا کہ وہ مفاہمت کی پالیسی اختیار کریں گے یا بلوچستان میں مزید اس طرح کی کارروائیاں ہوں گی جو کہ اسلام آباد سے دوری کا باعث بنتی رہی ہیں۔
’پیپلز پارٹی مذاکرات پر یقین رکھتی ہے‘
وزارت اعلیٰ کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے موقع پر میر سرفراز بگٹی نے خود بھی میڈیا کے نمائندوں سے بات کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنا روڈ میپ دیں گے۔ پیپلز پارٹی مذاکرات پر یقین رکھتی ہے اور ہمیشہ پارٹی نے مذاکرات کے ذریعے مسائل کو حل کیا ہے۔
جو لوگ تشدد کریں گے ہماری خواہش یہ ہے کہ وہ تمام لوگ تشدد کو چھوڑ کر قومی دھارے کی سیاست کا حصہ بن جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری خواہش ہو گی اور کوئی بھی ایشو ہوگا اگر وہ مذاکرات سے حل ہوتا ہے تو اس سے کوئی اور اچھی بات کیا ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ جمیعت علما اسلام سمیت جتنی بھی جماعتیں ان کے ساتھ اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کریں گی ان کے ساتھ بات کریں گے اور ایک صحت مند ماحول بنائیں گے اور بلوچستان کے لوگوں کی بہتری کے لیے ہم پر جو تنقید ہو گی اس کو قبول کریں گے کیونکہ حزب اختلاف کے بغیر جمہوریت کا تصور مکمل نہیں ہوتا ہے ۔
میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ بلوچستان میں گورننس کا جو مسئلہ ہے اس کو بہتر کرنے اور بلوچستان کے دیگر بڑے مسائل کے حل کے لیے مل کر محنت کریں گے۔
میر سرفراز بگٹی پر بم حملوں سمیت متعدد دیگر حملے ہوئے جن میں وہ خود محفوظ رہے تاہم ان کے متعدد ساتھی اور سیکورٹی گارڈ ہلاک اور زخمی ہوئے۔
0 تبصرے