انتخابات کی تاریخ جب قریب آتی ہے تو ہر شخص اس سوچ میں غرق ہو جاتا ہے کہ اپنا قیمتی ووٹ کس کو دے

ووٹ کا معاملہ دراصل ہم میں سے ہر ایک شخص کا ذاتی معاملہ ہے، جس میں وہ خدا کے سامنے جوابدہ ہے۔ اگر ہمارے ووٹوں سے فاسق و فاجر اور خدا کے باغی لوگ منتخب ہو کر ہمارے اوپر آ کئے، تو اللہ تعالی ہم میں سے ایک، ایک کو پکڑیںگے ، اور پوچھیں گے کہ جب میں نےتم کو آنکھیں دی تھیں، تو تم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی بجائے دوسروں کی اندھا دھند پیروی کیوں کی؟

بتائیے ، اس سوال کا آپ خدا کو کیا جواب دیں گے ؟

انتخابات کی تاریخ جب قریب آتی ہے تو ہر شخص اس سوچ میں غرق ہو جاتا ہے کہ اپنا قیمتی ووٹ کس کو دے؟کس امیدوار کے انتخابی نشان پر اپنی تصدیقی مہر لگائیں؟ کس کو راہنما مانے؟اپنی رائے کس کے حق میں استعمال کرے؟عوام پر واضح رہنا چاہیے کہ ووٹ صرف کاغذ کی پرچی نہیں جو بغیر سوچے سمجھے مہرلگا کر کسی کے بھی حق میں ڈال دی جائے بلکہ یہ آپ کی قیمتی رائے ہے یہ آپکے پاس صرف ایک امانت ہی نہیں بلکہ ایک شہادت ہے “اور اللہ کی رضا مندی کے لیے شہادت دو”(القرآن) اگر آپ اپنی رائے ایسے شخص کے حق میں استعمال کریں گے جو بد دیانت ہو حکومتی خزانے لوٹنے والا ہوآپ کے علاقہ کی ا سکیموں کےلیے بھیجی جانے والی رقوم میں خورد برد کرنے والا ہو،دھوکا باز ہو جھوٹا فراڈی اورخائن ہوتوآپ اس کی لوٹ کھسوٹ ،دھوکا بازی اور جھوٹ میں برابر کے شریک ہوں گے کہ آپ نے اس کو ووٹ کے ذریعے طاقتور بنایا ہے اپنا سردار اور راہنما چن لیا ہے اب اس کی تمام غلیظ حرکات کے آپ بھی اسی طرح ذمہ دار اور حصہ دار ہیں جیسا وہ خود ہے آپ کو تو معلوم بھی نہ ہو گا کہ آپ کے اس راہنما نے کیا کیاگُل کھلائے ہیں یعنی کیا کیا گناہ کیے ہیں مگر آپ کے کھاتے میں اس کے کیے گئے گناہوں کا برابر حصہ لکھا جاتا رہے گا ہم برے آدمی کو ووٹ دیں گے تو وہ ممبر کی حیثیت میں جو بُرے کام کرے گااس کے گناہ میں ہمیں برابر کا حصہ ملے گا ۔ اسی طرح اچھے آدمی کو ووٹ دینے کی صورت میںوہ ممبر کی حیثیت سے جو اچھے کام کرے گااس کے اجر میں ہمیں بھی حصہ ملے گا ووٹ ایک گواہی ہے اس بات کی کہ میرے حلقے میں جو امیدوار الیکشن میں کھڑے ہیں ان میں سے فلاں سب سے بہتر ہے نبی اکرم ﷺ کے ارشاد کے مطابق جھوٹی گواہی دینا گناہ کبیرہ ہے۔ووٹ نہ دینا یا غلط ووٹ دینا سچی گواہی کو چھپانے کے مترادف ہے اور اللہ تعالیٰ نے سچی گواہی کو چھپانے کو بہت بڑا ظلم قرار دیا ہے قرآن کریم میں ارشاد ہے “اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جس کے ذمہ اللہ کی طرف سے گواہی ہو اور وہ اسے چھپائے (البقرۃ:141)ووٹ امانت ہے اس کے ذریعے منتخب ہونے والے افراد ان اختیارات اور فنڈز کے امین ہوتے ہیں جو ہم ووٹ کے ذریعے امانت کے طور پر انہیں دیتے ہیں تاکہ وہ انکو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کریں۔قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے”مسلمانو اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل افراد کے سپرد کردو”(النسأ:58)نبی اکرم ﷺ نے فرمایا “کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں جن میں سے ایک امانت میں خیانت ہے “ووٹ کے ذریعے ہم اس بات کی سفارش کرتے ہیں کہ فلاں شخص کو ہمارے علاقے کا ممبر ہونا چاہیے قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے “جو شخص بھلائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہے (النسأ:85)۔

ذرا سوچئے اگر آپ کو چند ہزار روپے یا اپنا تھوڑا سا قیمتی سامان کسی کے پاس بطور امانت رکھنا ہو تو آپ کی نگاہیں کس طرح کسی امانت دار اور ایماندار شخص کو ڈھونڈھتی ہیں آپ کو اپنے حقیقی بھائی پر بھی اگر بھروسہ نہ ہو تو آپ کبھی اس   کے پاس تھوڑی سی پونجی بطور امانت رکھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے پھر کس طرح بار بار آپ ملک کی باگ ڈور دھوکا بازاور خائن لوگوں کے سپرد کردیتے ہیں؟ کس طرح قانون کی کھلی خلاف ورزی کرنے والوں اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لیکر اس کو مذاق بنانے والوں کو قانون کا محافظ بنا دیتے ہیں؟کیوں بار بار ایسے افراد کو حکومت میں لایا جاتا ہے جو دیانت و امانت کے معروف تقاضوں پر پورا نہیں اترتے ؟جو ملک کی دولت لوٹ کر ملک سے باہر لے جاتے ہیں ؟؟جو فرقہ واریت  علاقائیت برادری ازم اور لسانیت کی لعنت کو ہوا دیکر اور ملک میں بد امنی پھیلا کر اپنے مذموم عزائم پورے کرتے ہوں؟جو عدلیہ کا مذاق پورے شدومد سے اڑاتے ہیں اور اسے اپنے تابع مہمل بنا کر رکھتے ہوں جن کے نزدیک عدالتیں بنیے کی دکان سے کم نہ ہوں ؟جو سادہ لوح لوگوں کے ساتھ جھوٹے دعوے/ وعدے کرتے ہوں انہیں سبز باغ دکھا کر ملک کے اثاثے اغیار کے حوالے کرتے ہوں ؟ووٹ کے ذریعے ہم اپنے علاقے کا سربراہ قائد اور امام منتخب کرتے ہیں قرآن پاک میں قیامت کے دن کے بارے میں اللہ فرماتے ہیں کہ “اس دن ہم سب انسانوں کو ان کے اماموںکے ساتھ بلائیں گے”(بنی اسرائیل :71)گویا دنیا میں ہم جسے اپنا قائد اور امام بنائیں گے قیامت کے روز ہمارا حشر اسی کے ساتھ ہو گا ووٹ کس کو دیا جائے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ “اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سے سب سے زیاده پرهیزگار (اللہ کی نافرمانی سے پر ہیز کرنے والا)ہے “ہمارے لیے ووٹ کا معیار یہی حکم الٰہی ہونا چاہیے جو امیدوار جتنا زیادہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنے والا ہے اور جس کے نیک عمل سب سے زیادہ ہیں وہی ہمارے لیے عزت کا مستحق ہونا چاہیے اور اسی کو اپنے علاقے کا نمائندہ اور قائد بنانا چاہیے اگر کسی حلقہ میں کوئی بھی امیدوار صحیح معنوں میں پرہیز گار اور دیانتدار معلوم نہ ہو تو ا ن میں سے نسبتاً کم گناہ گار کے حق میں ووٹ استعمال کرنا ہو گا کیونکہ ووٹ نہ دینے کی صورت میں ہم بددیانت و گناہ گار امیدوار کےلیے منتخب ہو جانے کا ذریعہ بن جائیں گے ایسا مت سوچئے کہ اچھے کردار کےامیدوار کو ووٹ دیں اور وہ جیت نہ سکے تو ووٹ ضائع ہو جائے گا ہم اپنے عمل کے ذمہ دار ہیں سوچنا ہو گا کہ قیامت کے روز ہمارے اپنے اعمال کی باز پرس ہوگی صرف دیانتدار افراد ہی قدرتی وسائل سے مالا مال ملک کے مسائل حل کرسکتے ہیں انتخاب میں ہمارا صحیح فیصلہ ہماری قسمت تبدیل کرسکتا ہے اور آئندہ نسلوں کے لیے سنگ میل ثابت ہو گا حدیث نبوی ﷺ ہے کہ “مومن ایک سوارخ سے بار بار نہیں ڈسا جاسکتا” تقویٰ اور نیکی کو معیار بنا کر اور اللہ تعالیٰ کو حاضر ناضرجان کر ہمیں ووٹ کا استعمال کرکے ہمیں صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق عطا ہوآمین۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے