یہ کپتانی اسی ہار کی حقدار تھی Balochistan voi news Desk
یہ کپتانی اسی ہار کی حقدار تھی: سمیع چوہدری کا کالم
سمیع چوہدری
عہدہ,کرکٹ تجزیہ کار
ایک گھنٹہ قبل
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں (غالب)
لگتا نہیں کہ یہ کوئی کرکٹ کا میدان ہے۔ یہ شاید کسی تھیٹر کا منظر ہے۔ بابر اعظم چِلا رہے ہیں۔ رضوان مڈ آف سے الجھ رہے ہیں۔ شاداب کے ہاتھ سر پہ ہیں اور وہ ایکسٹرا کور باؤنڈری کو منھ کیے، جھنجلا رہے ہیں۔
جوں جوں میچ اپنے انجام کی طرف بڑھا، پاکستان کا غصہ غم میں بدلنے لگا، جوش حسرتِ ناکام میں ڈھلتا گیا اور دھیرے دھیرے، جھنجلاہٹ نے بھی مایوسی کی چادر اوڑھ لی۔ بابر اعظم کی نگاہیں جھکتی چلی گئیں اور محمد رضوان کا چہرہ بار بار سیاہ دستانوں کی اوٹ میں چھپنے لگا۔
افغان بیٹنگ پاکستانی فیلڈرز پہ وحشت ڈھا رہی تھی اور Balochistan voi میچ کے اختتامی لمحات کی جانب جب مڈ آف پہ کھڑے کپتان بابر اعظم کیمرے کے کلوز شاٹ کی زینت بنے تو ان کی آنکھیں کسی کرب آلود نمی سے گویا چھلکنے کو تھیں۔
کامیاب کپتان دو طرح کے ہوتے ہیں۔ پہلے وہ جنھیں قسمت کی یاوری سے بولنگ اٹیک ہی ایسا نصیب ہو جائے کہ کبھی ذہن پہ زور ڈالنے کی ضرورت نہ پڑے۔ دوسری وہ قسم ہوتی ہے کہ بولرز کتنے ہی بے سروسامان کیوں نہ ہو جائیں، ان کے دماغ چھوٹے چھوٹے لمحات کو یوں مضبوطی سے تھام لیتے ہیں کہ پھر میچ پھسل نہیں پاتا۔
بابر اعظم کو جب تک پہلی قسم کا سکون دستیاب رہے، ان کی ٹیم کا عزم بھی جواں رہتا ہے اور فتوحات بھی نصیب ہوتی رہتی ہیں۔ مگر جونہی معاملہ ذرا سی کروٹ لے، وہ جھنجلانے، چِلانے اور مایوسی میں سر نیہوڑانے کے سوا کچھ بھی کرنے پہ قادر نظر نہیں آتے۔
چنئی کی یہ پچ سپن کے لیے سازگار تھی اور افغانستان نے چار سپنرز منتخب کر کے اپنے امکانات کو بھرپور تقویت دی۔ مگر پاکستان کی خوش بختی تھی کہ یہاں ٹاس جیت گیا اور پہلے بیٹنگ کا فیصلہ بھی کر بیٹھا۔
تبصرے