سیاسی جماعتوں میں مذاکرات، سپریم کورٹ کے مشورے کے بعد ڈیڈلاک کا خاتمہ ممکن ہے Balochistan Voi

سیاسی جماعتوں میں مذاکرات، سپریم کورٹ کے مشورے کے بعد ڈیڈلاک کا خاتمہ ممکن ہے؟

سیاسی جماعتوں میں مذاکرات

حکومت کی مرکزی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے سربراہ آصف علی زرداری نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی طرفسے مذاکراتکےمشورے کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا کہ سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے اختلافات مل بیٹھ کر حل کرنے چاہییں۔پاکستان پیپلز پارٹی نے اپوزیشن کی پارٹی تحریک انصاف اور حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے درمیان مذاکرات کےلیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دے رکھی ہے جو مختلف جماعتوں کے قائدین سے مل کر مذاکرات کی راہ ہموار کر رہی ہے۔

ایک طرف پاکستان تحریک انصاف نے جماعت اسلامی کے رابطہ کرنے پر تین رکنی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی ہے تو دوسری طرف اس کے سینیئر نائب صدر فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات مذاکرات کے لیے موافق نہیں ہیں اور حکومت کی طرف سے پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریوں نے ان پر پانی پھیر دیا ہے۔ کچھ اسی طرح کے خیالات پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اور صدر چوہدری پرویز الٰہی کے بھی ہیں۔ 

جمعرات کے روز آصف زرداری کے بیان کے بعد بھی بلاول بھٹو زرداری نے فضل الرحمان سے ملاقات کی اور اطلاعات کے مطابق انہیں پی ٹی آئی سے بات چیت پر آمادہ کرنے کی کوشکی۔اسی طرح جماعتاسلامی کے سربراہ سراج الحق نے بھی وزیراعظم شہباز شریف اور پی ٹی آئی کےسربراہ عمران خان سے ملاقاتیں کی یں۔ ان کی طرف سے بھی دعوٰی کیا گیا ہے 

کہ ’فریقین مذاکرات کے لیے تیار ہیں اور عام انتخابات کے لیے ایک متفقہ تاریخ پر پیش رفت ہو سکتی ہے۔‘تاہم اس بات 

چیت سے جڑے کئی افراد کا کہنا ہے کہ ’یہ کوششیں محض دکھاوا ہیں اور ابھی تک کسی بھی طرف سے کھلے دل سے اس عمل 

کا حصہ بننے کی ہامی نہیں بھری گئی۔‘یہاں تک کہ جن جماعتوں کے مابین مذاکرات ہونا ہیں ان کے اندر سے متضاد موقف 

سامنے آرہے ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ابھی تک فریقین اس سلسلے میں ایک صفحے پر نہیں آئے۔

پاکستان پیپلز پارٹی ان مذاکرات کے لیے سرگرم دکھائی دینے کے لیے کوشاں تو ہے لیکن ان کی ملاقاتوں کے باوجود پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ابھی تک مذاکرات کے لیے آمادگی ظاہر نہیں کی اور وہ عمران خان کو سیاسی منظر نامے کا ’غیر ضروری عنصر‘ قرار دینے اور ان سے مذاکرات نہ کرنے کے اپنے بیان پر قائم ہیں۔  اکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما رانا ثنا اللہ اور جاوید لطیف بھی صاف لفظوں میں عمران خان سے مذاکرات کی مخالفت کر چکے ہیں۔  ان بیانات کے بعد مذاکرات کے انعقاد کی سنجیدگی پر سوال اٹھتا ہے۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجیسلیٹو ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کےسربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ ’مذاکرات کا ڈول ڈلتے ہی سیاسی جماعتوں میں موجود صلح جو اور جنگجو لوگ اپنے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے متحرک ہو چکے ہیں۔‘’ہر جماعت کے اندر کچھ سخت گیر لوگ ہیں اور کچھ صلح جو قسم کے لوگ ہیں۔ وہ دونوں اپنے اپنے طور پر مذاکرات کی اس کوشش کو ناکام کرنے یاکامیاب کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بیانات بھی دیتے ہیں۔ اعلٰی قیادت کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اس نے کیا کرنا ہے اور اعلٰی قیادت کو چاہیے کہ گفتگو کے لیے کوئی راستہ ہموار کرے۔‘ احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ مذاکرات سے پہلے فریقین کی جانب سے اعتماد بحالی کے اقدامات ہونے چاہییں اور ان کی عدم موجودگی میں نہ تو اس طرح کی کوئی کوشش سنجیدہ ہو سکتی ہے اور نہ ہی کامیاب۔ان کے مطابق ’جنگ بندی کر لیں، ایک دوسرے کے خلاف باتیں کرنا بند کر دیں، فوج کے خلاف پروپیگنڈا بند کر دیں۔ مقدمات بنانا بھی بند کر دیں۔ یہ اعتماد کی بحالی کے اقدامات ہوں گے۔‘ ’نشانہ بنانا بھی بند کردیں، کارکنوں کو پکڑنا، خواہ مخواہ گرفتار کرنا۔ کوئی صحیح مقدمہ ہے تو ٹھیک ہے لیکن اگر نہیں ہے تو پھر ایسے کام نہ کریں۔‘

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کوئٹہ میں بے روزگاری اور حالات سے تنگ ا کر ایک اور 36 سالہ نوجوان نے خود کشی کر لی

بلوچستان کی آواز کو بڑھانا آگاہی کے لیے ڈیجیٹل میڈیا کو فروغ دینا

نازیبا ویڈیوز بناکر اہل خانہ کو ہراساں کر نے والی 2 گھریلو خواتین ملازم گرفتار