کوئٹہ میں قومی ڈائیلاگ سیمینار میں خطاب کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی بلوچستان voi
پارٹیاں بہت ہیں، ہم کوئی نئی پارٹی نہیں بنا رہے: شاہد
خاقان عباسی
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے سینیئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ’مریم نواز کو سQuetta news update ینیئر نائب صدر بنانے کا فیصلہ پارٹی کا اپنا ہے۔‘
کوئٹہ میں ’قومی ڈائیلاگ‘ سیمینار میں خطاب کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے نئی پارٹی قائم کرنے کی ایک بار پھر تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’ملک میں پارٹیاں بہت ہیں ہم کوئی نئی پارٹی نہیں بنا رہے۔ ایک ایسا فورم بنانا ہے جس پر عوامی مسائل پر بات ہو سکے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’قومی اسمبلی، سینیٹ اور نہ ہی صوبائی اسمبلی میں اب عوام کے مسائل پر بات ہوتی ہے، اس لیے غیرسیاسی فورم پر عوام کے حقیقی مسائل پر بات کرنے نکلے ہیں۔‘
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’ملک کی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے پہلے مفتاح اسماعیل نے کوشش کی اب اسحاق ڈار کر رہے ہیں۔‘
قبل ازیں شاہد خاقان عباسی کا ’قومی ڈائیلاگ‘ سیمینار سے خطاب میں کہنا تھا کہ ’ملک کی بدقسمتی ہے کہ معیشت کی بدحالی اور سیاست کی ناکامی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔‘
پاکستان کنگال ہوچکا ہے جو قرض لیا جارہا ہے وہ پیسےکہا خرچ ہورہے ہیں۔کوئٹہ(بلوچستانvoi)سیاسی جماعتوں کے رہنماء،وکلاء،سول سوسائٹی کے نمائندوں،صحافیوں اور سماجی وانسانی حقوق کے کارکنوں نے کہا ہے پاکستان اس وقت مشکل دور سے گزررہا ہے ملک کی سیاست کا محور عوامی مسائل کا حل نہیں بلکہ انتقام کی سیاست ہے، سیاست میں مداخلت نے سیاسی نظام کو نقصان پہنچایا ہے،معاشی اور معاشرتی حالات ابتر ہوتے جارہے ہیں،عوامی مسائل پر پارلیمنٹ کی توجہ نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں میں احساس محرومی بڑھ رہا ہے،سیاسی نظام کو پنپنے نہ دیا گیا تو لوگ پہاڑوں پر جانے پر مجبور ہونگے، لوگوں کے مسائل کو سننے اور انہیں حل کرنے کی سکت پیداکرنے کی ضرورت ہے،اگر نیا عمرانی معاہدہ بھی کرنا پڑے تو یہ اقدام بھی اٹھایا جائے،یہ بات بلوچستان پیس فورم کے سربراہ نوابزادہ حاجی میرلشکری خان رئیسانی، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وفاقی وزیر مفتاح اسماعیل،سینیٹر فرحت اللہ بابر، سابق سینیٹرمصطفی نواز کھوکھر، سابق وفاقی وزیر خواجہ محمد ہوتی،سابق وزیراعلیٰ و رکن صوبائی اسمبلی نواب اسلم رئیسانی سمیت سیاسی جماعتوں، وکلاء برداری،صحافی رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے ہفتہ کو نوری نصیر خان کلچرل کمپلکس کوئٹہ میں بلوچستان پیس فورم کے زیر اہتمام ”نیشنل ڈائیلاگ آن ری ایمرجننگ پاکستان“ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ بلوچستان پیس فورم کے سربراہ نوابزادہ حاجی میرلشکری خان رئیسانی نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان اسمبلی کا اجلاس بلاکرایک قرارداد کے ذریعے صوبے کے وسائل بیچے گئے بلوچستان کی ماؤں بہنوں نے تین ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرکے سپریم کورٹ کے سامنے انصاف کی اپیل کی انہیں بھی انصاف نہیں ملا بلوچستان کے 80فیصد لوگ سطح غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں گوادر کے لوگ اپنی بنیادی ضروریات،چیک پوسٹوں کے خاتمے کیلئے احتجاج کر رہے ہیں کسی بھی سیاسی جماعت نے آج تک 20سے 25ہزار خواتین کی ریلی نہیں نکالی لیکن گوادر کی خواتین اپنے حقوق کیلئے اتنی بڑی تعداد میں نکلیں انہوں نے کہا کہ ملک پرکئی سو ارب ڈالر کا قرضہ ہوگیا ہے بتایا جائے کہ پہلا قرض کس نے لیا وہ کتنا قرض تھاکہاں خرچ ہوا اور اب جو قرض لیا جارہا ہے وہ پیسے کہاں خرچ ہورہے ہیں آج ملک کنگال ہوچکا ہے ہمارے نام پر لوگ قرض لیکر بعد میں چلے جاتے ہیں پاکستان کا قرض کا بلیک ہول بن چکا ہے کیا جوقرض لیا گیا اسکا 6فیصد بھی بلوچستان پرخرچ کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں فرضی دشمنوں سے ڈرایا گیا اور ہزاروں لوگوں کی لاشیں گریں ہم ایک نئے تصور کے ساتھ مداخلت کرنے والوں کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ انتظامی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔انہوں نے کہا کہ پہلے فاٹابدنام تھا اب بلوچستان میں راتوں رات سیاسی جماعتیں بن جاتی ہیں ایسی جماعتیں پارلیمنٹ میں جاکرعوام کی نمائندگی نہیں کرسکتیں۔انہوں نے کہا کہ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی،زیڈ کے بی کے احمد خان اور ملتانی محلے کے عبدالقادر کو سینٹ میں بھیجا گیاانکا کیا سیاسی نظریہ ہے آج سیاسی جماعتوں نے ان تمام لوگوں کواپنے سرکا تاج بنایا ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے کہا کہ وہ نیوٹرل ہوگئے ہیں لیکن ماضی میں مداخلت اور حلف کی خلاف ورزی پر تحقیقات ہونی چاہئے مسنگ پرسنز کے مسئلے کو غیرذمہ داری سے حل نہیں کیا جاسکتاجسٹس جاوید اقبال مسنگ پرسنز کمیشن کے سربراہ تھے لیکن وہ نیب میں سیاسی رہنماوں کی پگڑیاں اچھالنے میں اتنے مصروف ہوگئے کہ انہوں نے اس مسئلے پرتوجہ نہیں دی۔انہوں نے کہا کہ اب اسلام آباد ہائیکورٹ اوراسکے بعدبلوچستان حکومت نے بھی کمیشن بنادیئے ہیں تاکہ افراتفری پھیلاکرمسائل سے توجہ ہٹائی جائے۔انہوں نے کہا کہ میں ملک کے نظام اور مداخلت کرنے والوں کو ہرتین ماہ بعد آئینہ دیکھاتا رہتا ہوں ہماری باتوں پر غور کرنے کی بجائے ہماری مخالفت اور ختم کرنے کیلئے لوگ سرجوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کسی سیاسی جماعت کے پاس معاشی ٹیم نہیں ہے کرایے کے ماہرین معیشت لائے جائیں گے تو نظام کیسے ٹھیک ہوگا۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پانچ سال تک اسٹے پر ایک شخص کو رکن پارلیمنٹ بنائے رکھا ہماری آواز اور ووٹ دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ آج بھی سیاست اور وفاق مائنس بلوچستان چل رہے ہیں اگر سیاسی کارکنوں کا راستہ روکیں گے تو وہ پہاڑوں پر جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم امن،ترقی،صحت،خوشحالی چاہتے ہیں مگر ہمارا اختیار صوبے کے لوگوں کے پاس ہونا چاہئے۔سابق وزیراعظم و مسلم لیگ(ن) کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ اگر سینٹ،قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں عوام کے مسائل کی بات ہوتی تو اس سیمینار کی ضرورت نہ پڑتی جب سیاست دشمنی،الزام تراشی،ایک دوسرے کو بدنام کرنے،جیلو ں میں ڈالنے پرآجائے تو معاشی اور سیاسی بدحالی جیسے نتائج سامنے آتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم کسی سیاسی فورم نہیں بلکہ غیرسیاسی فورم پر سیمینار کررہے ہیں تاکہ عوام کے مسائل کی بات اورانکا حل تلاش کرنے پرغور و فکر کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ سیاسی نظام میں اسوقت استعداد نہیں ہے کہ وہ مسائل کا سامنا کرسکے دنیا ترقی کر رہی ہے اور ہمارا ملک بدحالی کا شکار ہے ہم سب نے حکومت اور اپوزیشن کی ہے مگر پاکستان کے مسائل حل نہیں کرسکے ہمیں ماضی سے سبق لیکر بہتر مستقبل بنانے کی ضرورت ہے اگر ہم ہرسال شرح خواندگی میں ایک فیصد اضافہ کرتے تو آج 75فیصد شرح خواندگی ہوتی تعلیم اور صحت کے معاملات بہتر کرنے کیلئے ہمیں ایک نظام بنانا ہوگا حکومت کو سروس ڈلیوی کی طرف آنا ہوگا۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل کے حل کا فورم اسمبلیاں اورسینٹ ہے مگر جہاں لسٹ بنے کہ کس نے جیتنا ہے اورکسی نے ہارنا ہے وہاں عوام کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ اس سے مسائل مزید بڑھ جاتے ہیں 50ہزار جعلی ووٹ لینے والا شخص کل تک پارلیمنٹ کا رکن تھابلوچستان خوشحالی کی بجائے بدحال ہے۔انہوں نے کہا کہ راتوں رات جماعتیں بنااور کروڑوں روپے دیکر لوگ سینیٹر بنے گئے تو ایسے لوگ سینٹ میں عوام کی نمائندگی نہیں کرسکتے ہمیں آئین اور عوام کی رائے کا احترام کرنے کی ضرورت ہے اگر ایسا نہیں کیا جاتاتو ملک ترقی نہیں کرپائے گا۔انہوں نے کہا کہ آج بھی مسنگ پرسنز کا مسئلہ موجودہ ہے یہ انصاف کے نظام اور آئین کی ناکامی ہے دنیا بھر میں دہشت گردی ہوتی ہے لیکن یہ انصاف کے نظام کا کام ہے کہ وہ فیصلہ کرکے کہ کون گہنگار ہے اورکو ن نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر ہم انسانی حقوق نہیں دے سکتے تو پھر ہم کونسے حقوق دیں گے اسکول،ہسپتال عوام کا معیار زندگی سمیت دیگر اشیاء دینے میں نظام ناکام ہیاب الزام تراشی اور دست و گریبان ہونے کا وقت نہیں یکجا ہوکر چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ صرف سیاست دان ہی نہیں اسٹیبلشمنٹ اورعدلیہ بھی ان حالات کے ذمہ دار ہیں پاکستان کے آئین کوایک بار موقع دیکر دیکھنے کی ضرورت ہے معاشی حالات پر قابو پانے کیلئے لمبا عرصہ درکار ہے گوادرکے لوگ پینے کے پانی تک سے محروم ہیں اب ہمیں مسائل کو حل کرنا ہے نہ کہ بہانے بنانے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر آئین میں تبدیلی یا نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے تو وہ بھی کیا جائے۔
سابق سینیٹر اور پیپلز پارٹی کے سابق رہنما مصطفٰی نواز کھوکھر نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’آج بھی لوگوں کے ساتھ وہ سچ نہیں بولا جا رہا جس کی ملک کو ضرورت ہے۔‘
’پانامہ اور توشہ خانہ کی باتیں تو ہوتی رہیں مگر لوگوں کے مسائل کہاں تھے۔ اگر ہم نے ان مسائل کا سنجیدگی سے حل نہ نکالا تو خدانخواستہ پاکستان کو نقصان ہو سکتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم سیاسی بریک ڈاؤن کے بھی قریب کھڑے ہیں۔ عوام اور سیاسی جماعتوں کے درمیان دوریاں پیدا ہو گئی ہیں۔‘
اس موقع پر سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’روزگار صرف بلوچستان کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ ہمیں سب پاکستانیوں کو روزگار دینا ہو گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں آٹھ کروڑ افراد غربت میں رہ رہے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ 75 سال کے بعد بھی ایک تہائی پاکستانی غربت کا شکار ہیں۔‘
’ایسی کیا وجہ ہے لوگ غریب ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم کس روش پر جا رہے ہیں۔ 60 فیصد پاکستانی ایسے ہیں جن کی ماہانہ آمدنی 35 ہزار روپے سے کم ہے۔‘
سابق وزیراعلٰی بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے ’قومی ڈائیلاگ‘سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’اس
ملک میں ہم اس لیےشامل ہوئے کہ اس میں ہماری عزت ہو گی، ہمیں سنا جائےگا۔ 1948 کے بعد شروع
ہونے والی شورش آج تک جاری ہے۔ اسلام آباد واےاس شورش کو محسوس کرنے کے لیے تیار نہیں۔‘
تبصرے