Ticker

6/recent/ticker-posts

Ad Code

Responsive Advertisement

خون آلود سیٹ پر ارشد شریف کے بال گولیوں کی ٹائمنگ اور آئی فون متضاد دعوے اور تحقیقات سے جڑے اہم سوال Balochistan voi news desk

خون آلود سیٹ پر ارشد شریف کے بال  خون آلود سیٹ پر ارشد شریف کے بال، گولیوں کی ٹائمنگ اور آئی فون: متضاد دعوے اور تحقیقات سے جڑے اہم سوال

خون آلود سیٹ پر ارشد شریف کے بال

’یہ پتھر یہاں کیوں رکھے ہیں؟‘ کچی، پتھریلی اور دُھول مٹی سے اٹی اُس ویرانصو سڑک پر سفر کے دوران ارشد شریف کی زندگی کا یہ آخری سوال تھا۔

اب تک کی تحقیقات کے مطابق اس سوال کے کچھ دیر بعد وہ گولی لگنے سے ہلاک ہو گئے تھے۔

پاکستانی صحافی ارشد شریف 23 اکتوبر کی رات کینیا کے علاقے مگاڈی میں فائرنگ کے ایک واقعے میں ہلاک ہوئے تھے۔ اُن کی موت کو تقریباً دو ماہ ہونے کو ہیں مگر پاکستان اور کینیا میں جاری اس ’ٹارگٹڈ قتل‘ کی تحقیقات کے نتیجے میں سامنے آنے والی معلومات بظاہر اس کیس کو مزید پیچیدہ اور گھمبیر بنا رہی ہیں۔

بی بی سی کی ٹیم کینیا میں ہونے والی تحقیقات میں پیشرفت سے متعلق جاننے کے لیے نیروبی پہنچی اور اس کیس سے جڑے مختلف کرداروں سے بات چیت کی

ہم نے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ اب تک ہونے والی تحقیقات میں کس نوعیت کے تضادات اور خامیاں ہیں۔

بی بی سی کی ٹیم نے جہاں کینیا میں اعلیٰ عہدیداروں کے انٹرویوز کیے وہیں اس کیس کی تحقیقات سے منسلک افسران، فائرنگ رینج اور فارم ہاؤس کے ملازمین اور فائرنگ کے مقام کی قریبی آبادی کے علاوہ بعض دستاویزات تک رسائی بھی حاصل کی ہے تاکہ اس کیس میں پیشرفت کی معلومات جمع ہو سکیں۔

نیروبی روانگی سے قبل میں نے نومبر میں ارشد شریف کے اہلخانہ سے ملاقات کی اور سمجھنے کی کوشش کی کہ اس واقعے کے بعد اُن کی فیملی آج کہاں کھڑی ہے۔

ہم نے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ اب تک ہونے والی تحقیقات میں کس نوعیت کے تضادات اور خامیاں ہیں۔

بی بی سی کی ٹیم نے جہاں کینیا میں اعلیٰ عہدیداروں کے انٹرویوز کیے وہیں اس کیس کی تحقیقات سے منسلک افسران، فائرنگ رینج اور فارم ہاؤس کے ملازمین اور فائرنگ کے مقام کی قریبی آبادی کے علاوہ بعض دستاویزات تک رسائی بھی حاصل کی ہے تاکہ اس کیس میں پیشرفت کی معلومات جمع ہو سکیں۔

نیروبی روانگی سے قبل میں نے نومبر میں ارشد شریف کے اہلخانہ سے ملاقات کی اور سمجھنے کی کوشش کی کہ اس’میں ذہنی طور پر اب تک یہ قبول ہی نہیں کر پائی کہ ارشد اس دنیا میں نہیں ہیں۔ جیسے وہ کبھی سوات چلا جاتا تھا، کبھی وزیرستان چلا جاتا تھا۔۔۔ میں آج بھی خود کو یہی بتاتی ہوں کہ وہ کہیں گیا ہوا ہے اور بس جلد ہی واپس آ جائے گا۔‘

ارشد شریف کی والدہ رفعت آرا علوی یہ بتاتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں۔ اُن کی عمر اب تقریباً 70 سال ہے اور کئی گھنٹے کی ملاقات میں صرف ایک بار میں نے ان کی آنکھوں میں آنسو دیکھے جب غالباً انھیں یہ خیال آیا کہ اُن کا بیٹا اب واپس نہیں آئے گا۔

ارشد شریف کی والدہ بار بار اپنے بیٹے کے قاتلوں کو سامنے لانے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ وہ غصے میں ہیں اور کسی بھی شخص کا نام لینے سے گریز نہیں کرتیں۔

’میرے پاس اب اور کیا بچا ہے؟ کیا ہم عورتیں باہر دھکے کھائیں؟ مجھے اس ملک میں انصاف کی کوئی امید نہیں رہی۔‘ واقعے کے بعد اُن کی فیملی آج کہاں کھڑی ہے

’میرے پاس اب اور کیا بچا ہے؟ کیا ہم عورتیں باہر دھکے کھائیں؟ مجھے اس ملک میں انصاف کی کوئی امید نہیں رہی‘



ارشد شریف اپنی نجی زندگی کو سوشل اور مین سٹریم میڈیا سے علیحدہ رکھنے کے قائل تھے اور یہی وجہ ہے کہ جب میں ان کی والدہ رفعت آرا علوی اور اہلیہ سمعیہ ارشد سے پہلی بار ملی تو انھوں نے دیگر اہلخانہ کے ہمراہ کئی گھنٹے آف کیمرہ بات کرنے کو ترجیح دی۔

اُن کے گھر میں ڈرائنگ روم اور لاؤنج کی دیواروں پر ارشد شریف، اُن کے بھائی میجر اشرف شریف اور والد جو پاکستان نیوی میں ملازم تھے، کی تصاویر، میڈلز اور شیلڈز آویزاں ہیں۔ اس کے علاوہ اہلخانہ کے پاس ارشد شریف کی اپنے بچوں کے ساتھ ہر موقع اور تہواروں کی تصاویر کے کئی البمز ہیں اور درجنوں ایسی تصاویر بھی جن پر جمی گرد اُن کی والدہ صاف کر رہی تھیں۔

’وہ ہر موقع پر تصویر بناتا تھا اور یادیں جمع کرتا رہتا تھا۔ ارشد ہر ہفتے دوستوں کی دعوت کرتا، ہم خواتین کھانا تیار کرتی تھیں مگر ہم کبھی اس کے دوست احباب سے نہیں ملے۔‘

یہیں ارشد شریف کی پہلی اہلیہ سمعیہ ارشد اپنے بچوں کے ہمراہ موجود تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ ارشد شریف کو طویل عرصے سے دھمکیاں مل رہی تھیں۔ ان دھمکیوں کا سلسلہ اس قدر بڑھ گیا تھا کہ انھیں کچھ عرصے تک اپنے فون بند رکھنے پڑے تھے۔

ارشد شریف کی والدہ تصاویر دکھاتے ہوئے: ’وہ ہر موقع پر تصویر بناتا تھا اور یادیں جمع کرتا رہتا تھا‘

’کافی عرصے سے دھمکیاں مل رہی تھیں اور ہم محتاط بھی تھے۔ مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ کوئی اس حد تک جا سکتا ہے۔ لوگ انھیں یہ مشورے بھی دیتے تھے کہ فی الحال پروگرام چھوڑ دو کیونکہ دھمکیاں مل رہی ہیں۔ یہ بھی دھمکی دی گئی کہ تمہارا پروگرام بند کروا دیں گے۔ پھر ایک وقت آیا کہ فون بند کرنے پڑے۔ انھیں پتا چلا ہو گا کہ ان کی کالز ٹیپ ہو رہی ہیں اور انھیں ٹریک کیا جا رہا ہو گا، سو کچھ عرصے کے لیے موبائل فونز آف کر دیے کہ یہ سلسلہ شاید تھم جائے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔‘

ان کی والدہ کے مطابق ارشد شریف نے ہر کسی کو خط لکھے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔ ’مگر کسی نے اس کی نہیں سنی۔ کسی نے اس کو تحفظ نہیں دیا۔ میں یہ نہیں جانتی کہ ان کی نیت کیا تھی لیکن اب ہر کوئی اس واقعے کو کیش کروا رہا ہے۔ میرا سوال ہے کہ وہ کون تھے جن کے کہنے پر ارشد کے خلاف درجن بھر ایف آئی آرز درج ہوئیں۔ یہ لوگ وہی ہیں جو ارشد کو ختم کرنا چاہتے تھے۔‘

ان کی والدہ کا اشارہ ان ایف آئی آرز کی جانب ہے جو صحافی ارشد شریف کے خلاف ان کے پاکستان چھوڑنے سے قبل مختلف شہروں میں کاٹی گئیں۔ ان کا پروگرام بند کر دیا گیا یہاں تک کہ ان کے نجی نیوز چینل اے آر وائے نے ان کی نوکری ختم کر دی۔

اس سے پہلے ارشد شریف کو اسٹیبلشمنٹ کے کافی قریب سمجھا جاتا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف رواں برس تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد ارشد شریف نے شدید الفاظ میں اسٹیبلشمنٹ اور سیاست میں ان کے مبینہ کردار پر تنقید شروع کی۔ جب فوجی قیادت اور عمران خان کے درمیان بیانیے کی جنگ شروع ہوئی تو ارشد شریف عمران خان کے ساتھ کھڑے تھے۔



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے