حکومت سمگلنگ کے نقصانات سے نمٹنے کے لیے ایک دستاویزی نظام کی تعمیل کر رہی ہے
حکام چمن کے لوگوں سے نیا طریقہ اختیار کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔
سمگلنگ کی وجہ سے سالانہ 23 بلین ڈالر کے نقصان کو روکنے کی کوشش میں، حکومت نے اپنی سرحدی گزرگاہوں پر سخت ضابطے متعارف کرائے ہیں، جس میں ایک دستاویزی نظام کا نفاذ بھی شامل ہے۔ یہ اقدام ملک کے شدید اقتصادی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے وسیع تر اقدامات کا حصہ ہے۔
افغانستان کے ساتھ سرحد پر باڑ لگانے کے کامیاب عمل کے بعد حکام نے تمام کراسنگ پوائنٹس پر ایک دستاویزی نظام نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس پالیسی کا مقصد لوگوں کی غیر قانونی نقل و حرکت، اسمگلنگ، اور ہتھیاروں، منشیات اور دیگر غیر قانونی سامان کی اسمگلنگ کو روکنا ہے۔
طورخم بارڈر اس نئے ضابطے کے لیے ایک ماڈل کے طور پر کام کرتا ہے۔ طورخم میں سرحد پار کاروبار سے وابستہ تقریباً 20,000 افراد نے ایک دستاویزی نظام کی تعمیل کی ہے، اس کے طویل مدتی فوائد کو تسلیم کرتے ہوئے اور روزگار کے متبادل ذرائع تلاش کرکے موافقت اختیار کی ہے۔
اس کے برعکس چمن بارڈر پر مزاحمت سامنے آئی ہے جہاں سرحد پار تجارت میں مصروف 5000 سے 6000 افراد نے نئے اقدامات کی مخالفت کی ہے۔ اسمگلنگ نیٹ ورکس اور بعض سیاسی شخصیات سے متاثر یہ گروہ گزشتہ چھ ماہ سے احتجاج کر رہے ہیں، جو حکومت کی ہدایت پر عمل کرنے کے بجائے بدامنی پھیلا رہے ہیں۔
حکام چمن کے لوگوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ ایک دستاویزی حکومت کو اپنائیں، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ پاکستان کی سرحدوں کو قانونی اور ضابطے کے ذریعے محفوظ بنانا قومی استحکام اور معاشی خوشحالی کے لیے بہت ضروری ہے۔
حکومت ان اقدامات کے ساتھ اپنے عزم میں ثابت قدم ہے، اس بات پر یقین رکھتے ہوئے کہ مناسب دستاویزات اور قانونی راہداری کے عمل ملکی مفادات کے تحفظ اور پائیدار اقتصادی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہیں۔
0 تبصرے