سو کر اُٹھی تو میرے خاندان کے ٹکڑے ہو چکے تھے، اس بار ہم سے ملنے کوئی نہیں آئے گا‘: غزہ کے یتیم بچوں کی بے مزہ عید
لیان اور ان کی 18 ماہ کی بہن سِوار اپنے خاندان میں زندہ بچ جانے والے واحد دو فرد ہیں۔ ان کا پورا خاندان غزہ کے
الاہلی ہسپتال میں گذشتہ برس اکتوبر میں ہونے والے بم دھماکے میں ہلاک ہو گیا تھا۔
اس رات لیان کے خاندان کے 35 افراد بشمول ان کے پانچ بہن، بھائی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
اس رات کے بارے میں بات کرتے ہوئے لیان کہتی ہیں کہ ’ہمارے خاندان کو ابھی ہسپتال پہنچے ڈیڑھ گھنٹہ ہی ہوا
تھا کہ ہم پر دو میزائل آ گرے۔ میں سو کر اُٹھی تو میرے خاندان کے ٹکڑے ہو چکے تھے۔‘
غزہ کے ہسپتال پر ہونے والے اس حملے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند گرہ
اسلامک جہاد نے حملے کا الزام ایک دوسرے پر عائد کیا تھا۔
لیان اب جنوبی غزہ میں رفح کے علاقے میں اپنی ایک آنٹی اور کزن کے ساتھ ایک جھونپڑی میں مقیم ہیں۔
جنگ سے قبل لیان اپنے والدین کے ساتھ عید پر پہننے کے لیے کپڑے خریدا کرتی تھیں، مقامی علاقوں میں ’مامول‘
کے نام سے مشہور بسکٹ بنایا کرتی تھیں اور خاندانی دعوتوں کا لُطف اُٹھایا کرتی تھیں۔
لیان کہتی ہیں کہ اس برس اب کوئی دعوت نہیں ہو گی۔ ’اس عید پر ہم سے ملنے کوئی نہیں آئے گا۔‘
لیان کے کزنز اپنے خاندان کے 43 افراد کے ہمراہ غزہ کے علاقے زیتون میں ایک بلڈنگ میں رہا کرتے تھے اور اب
اس خاندان کے زندہ بچ جانے والے افراد جنوبی غزہ میں ایک جھونپڑی میں رہتے ہیں۔
کھانوں کی تیاری
عام حالات میں عید کے موقع پر پُرتعیش دعوتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے اور انواع اقسام کے کھانے بنائے جاتے ہیں لیکن جنگی حالات میں غزہ کے بچوں کے پاس صرف ماضی کی یادیں ہی بچی ہیں۔عید کے موقع پر غزہ کے دسترخوانوں پر گوشت سے بنی ڈش ’سوموکیا‘ اور نمکین مچھلی ’فسیخ‘ لازمی سجی ہوتی تھیں لیکن خوشی کے اس تہوار پر بنائے گئے بسکٹ بچوں اور بڑوں کی توجہ کا خاص مرکز ہوا کرتے تھے۔
رفح میں بے گھر افراد کی ایک آبادی میں ایک فلسطینی شخص مجد نصر اور ان کے خاندان کی جھونپڑی میں تقریباً 10 خواتین جمع ہوئی ہیں تاکہ وہ اس عید پر بسکٹ بنا سکیں۔
مجد کی عمر 20 برس ہے اور وہ جنگ شروع ہونے سے قبل غزہ کے شمالی علاقے میں رہا کرتے تھے۔ انھوں نے بسکٹ بنوانے کا اہتمام اس لیے کیا تاکہ وہ ’اس آبادی میں رہنے والے بچوں اور ان کے خاندانوں کے لیے عید کی خوشیاں بحال‘ کر سکیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’مامول بسکٹ بنانے کے لیے جن اجزا کا استعمال ہوتا ہے ان کی قیمتیں گذشتہ برسوں کے مقابلے میں تین سے چار گُنا بڑھ چکی ہیں۔‘
یہ نوجوان اس آبادی میں مقیم تقریباً 60 خاندانوں میں کیک بھی تقسیم کر رہے ہیں۔
غزہ کی پٹی پر اس وقت تقریباً 17 لاکھ بے گھر افراد انتہائی مشکل حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور کھانے، پینے کے لیے ان کا انحصار صرف اور صرف بیرونی امداد پر ہے کیونکہ ان کے علاقوں میں کھانا اور پانی تقریباً ناپید ہو چکا ہے۔
0 تبصرے