ہر سال 8 مارچ کے دن دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد خواتین کے حقوق سے متعلق آگاہی پھیلانا ہے اور ان کی خدمات کا اعتراف کرنا ہے۔
خواتین کے عالمی دن پر ہر سال دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں مختلف تقریبات، سیمینارز اور مظاہروں کا انعقاد کیا جاتا ہے اور ان کے حقوق کو اجاگر کرنے کے ساتھ خدمات کا اعتراف بھی کیا جاتا ہے۔
خواتین کے عالمی دن کے مناسبت سے بلوچستان ڈیویلپمنٹ فورم کے چیئرمین جانان خان اچکزئی کی سربراہی میں بلوچستان ڈیویلپمنٹ فورم کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری ملک شعیب علی اعوان فیمیل ونگ کی ممبر مس شگفتہ، چوہدری عامر ،محمد نبی، صمد مینگل اجمل اچکزئی نے ائی جی جیل خانہ جات ملک شجاع کاسی سے ملاقات کی ملاقات کا مقصد خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے بلوچستان کی جیل میں قید خواتین جو کہ دور دراز علاقوں سے کوئٹہ کی جیل میں قید و بند کاٹ رہی ہیں ان کی ضروریات زندگی کو بہتر بنانے کے لیے روزمرہ زندگی سے منسلک سامان بما راشن دینا تھا۔ کوئٹہ کی جیل میں قید 30 خواتین بما چھ کم عمر بچوں کے موجود ہیں خواتین کے عالمی دن پر بلوچستان ڈیویلپمنٹ فورم کی طرف سے اٹھائے گئے اقدام کو ائی جی جیل خانہ جات ملک شجاع کاسی اور سپریڈنٹ جیل خانہ جات کوئٹہ اسحاق زہری کی طرف سے خوب سراہا گیا۔
صنف نازک کے حقوق ،صنفی مساوات ، معاشی استحکام ، روزمرہ زندگی کے نمایاں حقوق کے مطالبات ، حقوق کی ادائیگی کے وعدے کیے جاتے ہیں اور پھر اگلے ہی روز وہی پُرانا معمول بن جاتا ہے ۔گھریلو تشدد، مقام کار پر ہراسگی، جائیداد میں حقوق نہ دینا وغیرہ وغیرہ اُسی طرح جاری رہتا ہے جیسا کہ سال کے بقایا 364 دنوں میں ہوتا ہے ۔ ہر سال سینکڑوں سیمینارز منعقد کرائیں جاتے ہیں اور یہ بارو کرایا جاتا ہے کہ آنے والے دن خواتین کی ترقی و خوشحالی کے نئے سورج لےکر طلوع ہوں مگر ہر آنے والا دن اُس سے ابتر ہوتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں عورتوں کے خلاف پائے جانے والی کافی سفاک رسومات ہیں جن میں وٹہ سٹہ، جہیز سرفہرست ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بالعموم 95 فیصد خواتین جہیز کے نام پر لمبی لمبی فہرستوں کا شکار ہوتی ہیں جو اُن کے نفسیاتی زندگی کو بُری طرح متاثر کرتی ہیں اور ساتھ ہی معاشرے میں کئی بگاڑ کا موجب بنتی ہیں ۔
ایک طرف خواتین بالعموم مختلف نوعیت کے جرائم کا شکار ہوتی ہے ساتھ ہی وہ خود بھی کئی قسم کے جرائم میں ملوث پائی جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی مختلف جیلوں تقریباً 1300 خواتین قیدی ہیں جن میں تقریباً 66 فیصد کو تاحال سزایاب نہیں کیاگیا کیونکہ اُن کے مقدمات زیرسماعت ہیں۔ ان میں سے 300 کے قریب ایسی خواتین ہیں جن کو اُنکے رہائشی اضلاع سے دور دیگر اضلاع میں قید رکھا گیا ہے جن سے اُن کے خاندان والوں کے ساتھ ملنے میں مشکلات کا سامنا ہے ۔پاکستان کے قانون میں کل ایسے 33 جرائم ہیں جن میں سزائے موت دی جاتی ہے، عام طور پر خواتین کو قتل، دہشتگردی، اغواکاری اور منشیات سمگلنگ کے جرائم میں موت کی سزائیں دی جاتی ہیں۔ اسی طرح اقلیت برادری سے تعلق رکھنے والی خواتین کو توہین مذہب کے جرائم میں سزائے موت دی جاتی ہیں۔ انسان اور جرائم کا تعلق ازل سے شروع ہے اور بدستور جاری ہے۔ مردوں کی بالا دست معاشروں کے علاوہ ایسے معاشرے جہاں پر صنفی مساوات کو عملی جامہ پہنایا گیا ہے، اُن معاشروں یا ممالک کی خواتین بھی جرائم میں شریک رہتی ہے۔
صنفی عدم مساوات ، انتقام ، غصہ ، حسد ، خواتین کو با اختیار نہ بنانا ایسی وجوہات ہیں جو کمزور ، ان پڑھ خواتین کو جرائم میں ملوث ہونے کے لئے Catalysts کا کام کرتی ہے جو بعد میں منشیات سے منسلک جرائم ، چوری اور قحبہ خانہ چلانے کے جرائم میں ملوث پائی جاتی ہیں۔ معاشی عدم استحکام بھی ایک ایسا پہلو ہے۔ جسےکسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے بالعموم جسم فروشی، چوری، خواتین کے بٹوے چھینے جیسے جرائم معاشی عدم استحکام کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں۔ میری مرد حضرات سے گزارش ہے کہ اپنے گھروں کے خواتین کو با اختیار بنائیں ۔ اُن کو مالی مشکلات کا سامنا کرنے کی بجائے انہیں معاشی طور پر مستحکم بنایا جائے۔ بنگلہ دیش کی مثال واضح ہے جہاں پر خواتین کو کام کرنے کی اجازت ہے۔وہاں پر معاشرتی اُصول آڑے نہیں آتی ہے۔
ارباب اختیار سے اپیل ہے کہ خدارا اس قوم کے مستقبل پر رحم کیجیئے۔ پورے ملک میں صرف صوبہ سندھ میں خواتین قیدیوں کی سہولیات عالمی معیار کے مطابق ہے۔ خواتین قیدیوں کیلئے قانونی امداد کی فراہمی ممکن بنائی جائے۔ ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دی جائے جو جیل قوانین ،سہولیات کو عالمی معیار کے مطابق بنانے کیلئے سفارشات مرتب کرے۔ فوری بنیادوں پر جیل ریفارمز کرکے جیل میں قید خواتین کی حالت زار کو مزید ابتر ہونے سے بچایا جاسکے،۔
0 تبصرے