پاکستان کی جانب سے جمعرات کی صبح ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان میں مبینہ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے نتیجے میں اب تک نو افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق ’جمعرات (18 جنوری) کی صبح پاکستان نے ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں دہشت گردوں کے مخصوس ٹھکانوں کے خلاف انتہائی مربوط فوجی حملوں کا آغاز کیا۔ انٹیلیجنس معلومات کی بنیاد پر مبنی اس آپریشن کے دوران متعدد دہشتگرد مارے گئے ہیں۔‘
یاد رہے کہ یہ کارروائی ایران کی جانب سے منگل کی رات پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے ’سبز کوہ‘ میں شدت پسند تنظیم ’جیش العدل‘ کے مبینہ ٹھکانوں پر ایرانی فورسز کے حملوں کے 36 گھنٹوں کے اندر کی گئی ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کے مطابق ایران کی جانب سے کیے جانے والے حملے میں دو بچے ہلاک جبکہ تین بچیاں زخمی ہوئی تھیں۔
ایرانی حملے کے درعمل میں پاکستان نے تہران سے اپنے سفیر کو واپس پاکستان طلب کر لیا تھا۔
آپریشن ’مرگ بر سرمچار‘ کیا ہے اور اس میں ایران کے کس علاقے کو نشانہ بنایا گیا؟
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ، آئی ایس پی آر، کا کہنا ہے کہ پاکستان نے 18 جنوری کو علی الصبح ایران کے اندر کارروائی کرتے ہوئے بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور اس حملے کا ہدف وہ عناصر تھے جو پاکستان کے اندر دہشتگردانہ کاروائیوں میں ملوث تھے۔
شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق اس کارروائی کو ’آپریشن مرگ بر سرمچار‘ کا کوڈ نام دیا گیا ہے اور انٹیلیجنس معلومات کی بنیاد پر کی گئی ہے۔
’مرگ بر سرمچار‘ فارسی کا جملہ ہے جس کا لفظی مطلب ’سرمچاروں کی موت‘ ہے۔ بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں سے منسلک افراد اپنے لیے ’سرمچار‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں جس کا مطلب براہوی زبان میں ’بہادر‘ اور ’گوریلا‘ کے بھی ہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق اس کارروائی میں خودکش ڈرون، راکٹ، میزائل اور گولہ بارود استعمال کیے گئے جبکہ ’کولیٹرل ڈیمج‘ سے بچنے کے انتہائی احتیاط برتی گئی۔
آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ایران میں نشانہ بنائے جانے والے ٹھکانے بی ایل اے اور بی ایل ایف جیسی تنظیموں سے منسلک دوستا عرف چیئرمین، بجر عرف سوغات، ساہل عرف شفق، اصغر عرف بشام اور وزیر عرف وزی اور دیگر دہشتگردوں کے زیر استعمال تھے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے خلاف کسی بھی مہم جوئی کے خلاف تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان کی فوج ہمہ وقت تیار ہے۔
سیستان اور بلوچستان کے ڈپٹی سیکیورٹی گورنر علی رضا مرہماتی نے ’ایران ٹی وی‘ کو بتایا ہے کہ یہ حملہ مقامی وقت کے مطابق صبح 04:05 بجے کیا گیا جس میں ایران کے سراوان شہر کے ایک سرحدی گاؤں کو نشانہ بنایا گیا۔
’مرگ بر سرمچار‘ فارسی کا جملہ ہے جس کا لفظی مطلب ’سرمچاروں کی موت‘ ہے۔ بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں سے منسلک افراد اپنے لیے ’سرمچار‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں جس کا مطلب براہوی زبان میں ’بہادر‘ اور ’گوریلا‘ کے بھی ہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق اس کارروائی میں خودکش ڈرون، راکٹ، میزائل اور گولہ بارود استعمال کیے گئے جبکہ ’کولیٹرل ڈیمج‘ سے بچنے کے انتہائی احتیاط برتی گئی۔
آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ایران میں نشانہ بنائے جانے والے ٹھکانے بی ایل اے اور بی ایل ایف جیسی تنظیموں سے منسلک دوستا عرف چیئرمین، بجر عرف سوغات، ساہل عرف شفق، اصغر عرف بشام اور وزیر عرف وزی اور دیگر دہشتگردوں کے زیر استعمال تھے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے خلاف کسی بھی مہم جوئی کے خلاف تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان کی فوج ہمہ وقت تیار ہے۔
سیستان اور بلوچستان کے ڈپٹی سیکیورٹی گورنر علی رضا مرہماتی نے ’ایران ٹی وی‘ کو بتایا ہے کہ یہ حملہ مقامی وقت کے مطابق صبح 04:05 بجے کیا گیا جس میں ایران کے سراوان شہر کے ایک سرحدی گاؤں کو نشانہ بنایا گیا۔
ارنا نیوز کے مطابق سراوان کا علاقہ ایرانی صوبے سیستان بلوچستان کے صدر مقام زاہدان سے 347 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع ہے جس کی سرحد پاکستان سے ملتی ہے۔
سراوان ایرانی صوبے سیستان و بلوچستان کا صدر مقام ہے جو کہ ایرانی دارالحکومت تہران سے تقریباً 18 سو کلومیٹر دور پاکستان اور ایران کے تافتان بارڈر سے 283 کلومیٹر دور واقع ہے۔
پاکستانی کارروائی کا ہدف کون تھا؟
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق ان حملوں میں بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں بی ایل اے اور بی ایل ایف کے ’دہشتگردوں‘ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔پاکستان کے صوبے بلوچستان اور اس سے ملحقہ علاقوں میں متعدد بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں گذشتہ کئی دہائیوں سے متحرک ہیں اور ان تنظیموں نے ماضی میں پاکستان کی سکیورٹی فورسز، پولیس اور اہم تنصیبات پر کئی مہلک حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
ان تنظیموں میں دو بڑے نام بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل اف) اور بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے ہیں۔ بی ایل ایف کے موجودہ سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ جبکہ بی ایل اے کے سربراہ بشیر زیب ہیں۔
پاکستانی حکام کی جانب سے گذشتہ کئی برسوں سے یہ دعوی کیا جاتا رہا تھا کہ ان علیحدگی پسند تنظیموں سے جُڑے عسکریت پسند ایران میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ ایران میں پاکستانی کارروائی کے بعد پی ایل ایف کے ترجمان کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ایران میں کوئی ٹھکانے موجود نہیں اور نہ ہی پاکستان کے حالیہ حملوں میں بلوچستان لبریشن فرنٹ کا کوئی سرمچار شہید ہوا ہے۔‘
0 تبصرے