روز روز مارنے سے تو اچھا ہے ایک ہی بار مار دیا جائے بلوچستان voi

اس لاوارث شہر کا کوئی پرسان حال نہیں ، یہاں کی تباہ کاریوں سے  نہ خانہ خدا محفوظ ہے نہ خانہ غریب محفوظ ہے

روز روز مارنے سے تو اچھا ہے ایک ہی بار مار دیا جائے ان غریبوں کو اب شاد و نادر کہیں سننے کو ملتا ہے کہ تین وقت کی روٹی مل جاتی ہےاب یقین جانے یہ الفاظ سنے ایسا لگتا کہ کہیں مہینے بیت چکے ہیں کہ کسی نے ہمارے سامنے یہ بات ہی نہیں کی کہ تین وقت کی روٹی کھاتے ہیں بس شکر ادا کرتے ہیں کیونکہ اب غریب تو دو وقت کی روٹی بڑی مشکل سے کھا پا رہا ہے اور اس کے اوپر سے نان بھائیوں کا اور بلوچستان کی پرائس کنٹرول کمیٹی ڈپٹی کمشنر صاحب اور کمشنر صاحب کے اٹھائے ہوئے اقدام ان کی کچھ سمجھ ہی نہیں اتی غریب عوام  تو اب یہ سوچنے پہ مجبور ہو گئی ہے کہ ہم تو یہ سوچ رہے تھے کہ چلیں اسلام اباد سے ٹرانسفر ہوا ہے پڑھے لکھے نوجوان ہیں مسائل پر جلد قابو پا لیں گے مگر اب کچھ سمجھ ہی نہیں ارہی جس بھی چیز میں ہاتھ ڈالتے ہیں وہ چیز الٹا غریبوں کے لیے وبال جان بن جاتی ہے اب غریب جو دو وقت کی روٹی بڑی مشکل سے  کھا پا رہا تھا اب وہ غریب پیٹ کاٹ کر ایک وقت پر تو اگیا ہے وہ بھی یقین جانیں کہ کام ملا مزدوری ہوئی تو اپنے گھر والوں کو کھلا پائے گا ورنہ تاریخ کی اس نیچ پر پہنچا دیا گیا ہے کہ شاید اس کے بعد کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔غریب عوام یہ کہنے پر مجبور ہو چکی ہے کہ اگر مارنا ہی ہے تو ایک ہی بار مار دیں اب ہر دن مرنے سے تو اچھا ہے کہ ایک بار مار دیا جائے بلوچستان کی غریب عوام  نہ تجربہ کاریوں کی وجہ سے اب تک ایسا لگتا ہے کہ سن 76 میں جی رہی ہے گیس بجلی پانی تو چھوڑیں اب کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں اور دوسری جانب وہی عوام جو خود کشی تو کر سکتی ہے مگر اپنے حق کے لیے اپنے بچوں کے لیے روڈ پر نہیں نکل سکتی.


 جیسا دیس ویسا بیس جیسی عوام ویسے حکمران۔

کوئٹہ: نانبائی کم وزن روٹیاں من پسند ریٹ پر فروخت کرنے لگے، عوام پریشان کہ ابھی پانچ دن پہلے ہی ہڑتال ختم ہوئی مگر ایسی بھی کیا انکھوں میں دھول جھونکی جائے جو دو سے تین دن تک بھی قائم نہ رہ سکے اب بلوچستان کی عوام پرائس کنٹرول کمیٹی ڈپٹی کمشنر صاحب اور کمشنر صاحب سے یہ پوچھ رہی ہے کہ یہ کیسا نظام ہے کوئٹہ شہر میں پرائس کنٹرول کمیٹی تو ہے ان کو تنخواہیں تو دی جاتی ہیں مگر پورے بلوچستان کے اندر کسی بھی دکاندار کے پاس پرائس کنٹرول لسٹ نہیں ہے جس کی دکان ہے اس کا اپنا ریٹ ہے مگر یہ شہر بہت گریٹ ہے یہاں میں ایک مشورہ بھی دینا چاہوں گا حکومت کو کہ یہ تو کچھ نہیں ہے میں اپ کو یقین دلاتا ہوں کہ کوئٹہ کی عوام اتنی غیرت مند ہے 50 کی جگہ 150 کی بھی کر دیں روٹی تب بھی وہ روڈ پر نہیں نکلیں گے اور تب بھی وہ اپ سے نہیں پوچھیں گے اس چیز کی میں اپ کو گارنٹی دیتا ہوں۔

کمشنر صاحب اور ڈپٹی کمشنر صاحب سے کوئٹہ کی عوام دسبستہ درخواست کر رہی ہے کہ اپ ہر چیز میں ہاتھ تو ڈال دیتے ہیں مگر عوام کو اب تک کوئی ریلیف نہیں ملا اپ سے درخواست ہے کہ ثبوت اپ کے سامنے ہیں پرائس کنٹرول کمیٹی کو شہر میں نکالیں پوری 340 گرام کی روٹی ہمیں طے کردہ ریٹ پر دی جائے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے