پرانے غزہ میں واقع ’الاہلی ہسپتال‘ میں ہونے والے دھماکے کو ایک ہفتے سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے مگر عرفات ابو عاصی کو آج بھی وہ لمحات یاد ہیں جب انھوں نے اس حملے کے نتیجے میں اپنے دو بیٹوں، ایک بھائی اور اپنی بہن کے دو بیٹوں کو کھویا۔
عرفات روتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’اُس رات میرے خاندان کے افراد کی ایک بڑی تعداد ہسپتال کے اندر پناہ لینے کے لیے گئی تھی۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ غزہ کے جس محلے میں ہم رہتے ہیں اس پر کسی بھی وقت اسرائیل کی جانب سے بمباری کی جا سکتی ہے۔ ہم نے سوچا ایسی صورتحال میں ہسپتال سب سے محفوظ جگہ ہو گی۔‘
یاد رہے کہ الاہلی ہسپتال انجلیکن چرچ کی مالی معاونت سے چلتا ہے اور ہسپتال انتظامیہ اس بات پر زور دیتی ہے کہ ہسپتال غزہ میں کسی بھی سیاسی دھڑے کے اثر و رسوخ سے مکمل طور پر آزاد ہے۔ انھی وجوہات کی بنا پر عرفات کے خاندان کو اس بات کا ذرا سا شک بھی نہ تھا کہ اس ہسپتال کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
اس دھماکے میں ہلاک ہونے والے عرفات کے بیٹوں احمد اور مازن کی عمریں بالترتیب 13 اور 17 سال تھیں۔ اپنے بیٹوں کو کھونے کی تلخی کے بارے میں وہ بتاتے ہیں کہ ’میری شادی کے آٹھ سال بعد آئی وی ایف علاج کی مدد سے ہمارا بڑا بیٹا مازن پیدا ہوا تھا، جس کی عمر 17 سال تھی۔ اور مازن کی پیدائش کے چار سال بعد احمد کی پیدائش ممکن ہوئی۔‘
ہسپتال پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں اپنے خاندان کے پانچ انتہائی قریبی افراد کی ہلاکت کی خبر موصول ہونے کے بعد عرفات اُن کی ’مسخ شدہ لاشیں‘ دیکھنے نہیں گئے اور اپنی بہن کے شوہر سے درخواست کی کہ وہ ان کے دونوں بیٹوں، چھوٹے بھائی اور دو بھتیجوں کی تدفین کا بندوبست کریں۔
عرفات کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنے دونوں بیٹوں کو مارے جانے کے بعد نہیں دیکھا اور نہ ہی میری بیوی نے انھیں دیکھا۔۔۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے ذہن میں اُن کی آخری تصویر دو کٹی پھٹی لاشوں کی صورت میں بنے۔‘
ہسپتال میں ہونے والے اس دھماکے میں فلسطینی حکام کے مطابق 500 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ عرفات اپنی اہلیہ اور سب سے چھوٹے بیٹے، نو سالہ فاراج، کے ساتھ اس وقت ایک ہمسائے کے گھر پر تھے۔
سینٹ جارج کالج یروشلم سے رچرڈ سیول نے بی بی سی کو بتایا کہ جب ہسپتال میں دھماکہ ہوا اس وقت 600 مریض اور عملہ عمارت کے اندر جبکہ ایک ہزار لوگ دالان میں پناہ لیے ہوئے تھے
انھوں نے بتایا کہ ایک وقت میں ہسپتال میں چھ ہزار افراد پناہ لیے ہوئے تھے۔
الاہلی ہسپتال میں دھماکے کے بعد کی تصاویر میں دیکھا گیا کہ زخمی افراد کو اندھیرے میں سٹریچرز پر باہر نکالا جا رہا تھا جبکہ باہر تباہ شدہ گاڑیاں اور لاشیں موجود تھیں۔
فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ یہ دھماکہ اسرائیلی فضائی حملے کی وجہ سے ہوا جبکہ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ یہ دھماکہ فلسطین اسلامی جہاد نامی تنظیم کی جانب سے داغے گئے راکٹ کی وجہ سے ہوا۔ فلسطین اسلامی جہاد اس الزام کی تردید کرتی ہے۔
الاہلی ہسپتال تین اطراف سے گنجان آباد علاقوں سے گھرا ہوا ہے جن میں زیتون، ال دراج اور شجاعیہ شامل ہیں۔
عرفات کہتے ہیں کہ 17 اکتوبر کو ان تینوں علاقوں کے مکینوں کو خبردار کیا گیا کہ بمباری ہونے والی ہے اسی لیے ہزاروں افراد ہسپتال میں پناہ لینے پہنچ گئے۔
غزہ کی وزارت صحت کے ترجمان ڈاکٹر اشرف نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ متعدد خاندانوں کے ایک سے زیادہ افراد اس دھماکے میں ہلاک ہوئے۔ عینی شاہدین نے بی بی سی کو بتایا کہ ایک خاندان کے 31 افراد اس دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
Balochistan Voi
0 تبصرے