گوادر میں حالات کشیدہ حق دو تحریک کے خلاف پولیس ایکشن پر مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے بلوچستانvOI

گوادر میں حالات کشیدہ حق دو تحریک گوادر میں حالات کشیدہ، ’حق دو تحریک‘ کے خلاف پولیس ایکشن پر مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے

gawader




 

بلوچستان کی اہم ترین بندرگاہ اور ساحلی شہر گوادر میں پیر کی صبح سے حالات

کشیدہ ہیں۔’حق دو تحریک‘ کے خلاف سیکیورٹی اداروں کی کارروائی کے خلاف بڑی تعداد میں مقامی افراد سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاج کیا۔

gawader

گوادر میں ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب 'حق دو تحریک' کے دھرنے کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے شیلنگ کی تھی جس سے دھرنے میں موجود خواتین اور بچے بھی شدید متاثر ہوئے۔ پولیس نے کئی افراد کو حراست میں بھی لیا تھا جن میں تحریک کے کئی رہنما بھی شامل ہیں۔



gawader

سیکیورٹی اداروں کی کارروائی کی اطلاع ملنے پر پیر کی صبح مقامی افراد نے میرین ڈرائیو کی جانب مارچ شروع کر دیا۔


احتجاج میں شریک بعض افراد نے سڑکوں پر ٹائر جلائے اور میرین ڈرائیو جانے والی شاہراہ بلاک کر دی

احتجاجی مظاہرین نے ہنگامہ آرائی کے دوران ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) پولیس کے آفس پر بھی پتھراؤ کیا جب کہ اس دوران پولیس کی جانب سے شیلنگ بھی کی گئی۔

مقامی میڈیا کے مطابق مظاہرین نے ڈی آئی جی کمپلیکس کےمرکزی دروازے کو بھی نذر آتش کر دیا۔

دوسری جانب سربندن کراس پر بھی خواتین نے مکران کوسٹل ہائی وے پر دھرنادے دیا جس سے شاہراہ ٹریفک کی آمد و رفت کے لیے مکمل بلاک ہو گئی ہے۔

 احتجاج کا دائرہ آہستہ آہستہ بڑھتا جا رہا ہے اور گوادر کے بعد پیشکان اور سربندن سمیت ضلع کےبیشتر چھوٹے بڑے شہروں میں کاروبار زندگی معطل ہو رہا ہے۔ بیشتر کاروباری مراکز اور بینک بند کر دیے گئے ہیں جب کہ شاہراہوں پر رکاوٹوں سے آمد و رفت میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔

خیال رہے کہ 'حق دو تحریک‘ کے شرکا نے دو ماہ قبل لالہ حمید چوک پر دھرنا دیا تھا ۔ جمعرات کو اس دھرنے کا مقام تبدیل کر کے پورٹ روڈ پر منتقل کیا گیا تھا۔

پورٹ روڈ وہ راستہ ہے جو گوادر بندرگاہ کو گوادر شہر سے ملاتا ہے جس کی بندش سے بندرگاہ جانے والے راستے بھی بند ہو گئے ہیں۔




مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ گوادر شہر میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے علاوہ ٹرالر مافیا اور چیک پوسٹس کا خاتمہ کیا جائے۔

تحریک کے زیرِ اہتمام گزشتہ برس نومبر میں بھی اپنے مطالبات پر کئی روز تک دھرنا دیا گیا تھا جب کہ خواتین کی بڑی تعداد نے ریلی بھی نکالی تھی۔

صوبائی حکومت کا ’مجبوراََ‘ کارروائی کرنے کا اعلان

دوسری جانب بلوچستان کی حکومت کے ترجمان نے ’حق دو تحریک‘ کے احتجاج اور دھرنے پر پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ احتجاج سب کا جمہوری حق ضرور ہے اور حکومت اس حق کا احترام کرتی ہے لیکن دھرنے کے شرکا کی جانب سے گوادر پورٹ کی طرف مارچ کرنے اور پورٹ کو بند کرنے کی کوشش کی گئی ۔’حق دو تحریک‘ کا طرز عمل اور رویہ اشتعال انگیزی پر مشتمل ہے۔یہ رویہ نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی شرمندگی کا باعث بن رہا ہے۔

’حق دو تحریک‘ کے سربراہ کا نام لے کر ترجمان کا کہنا تھا کہ چند ماہ قبل وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نے گوادر جاکر مولانا ہدایت الرحمٰن سے مذاکرات کر کے دھرنا ختم کرایا تھا۔ حق دو تحریک کے بیشتر مطالبات تسلیم کرکے ان پر عمل درآمد شروع کیا گیا اور مطالبات پورے کرنے کے لیے جاری عمل کو مزید تیز کیا گیا ہے۔
ان کا دعویٰ تھا کہ 'حق دو تحریک' کی جانب سے صوبائی حکومت کی مخلصانہ کوششوں اور بات چیت کی خواہش کو کمزوری سمجھا گیا۔کسی کو حکومتی رٹ چیلنج کرنے اور قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔
انہوں نے کہا کہ شرکا کی پورٹ کی جانب پیش قدمی کو روکنے کے لیے مجبوراً پولیس کو کارروائی کرنا پڑی ۔ تاہم صوبائی حکومت مسائل اور مطالبات کے حل کے لیے مذاکرات پر مکمل یقین رکھتی ہے۔



تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کوئٹہ میں بے روزگاری اور حالات سے تنگ ا کر ایک اور 36 سالہ نوجوان نے خود کشی کر لی

بلوچستان کی آواز کو بڑھانا آگاہی کے لیے ڈیجیٹل میڈیا کو فروغ دینا

نازیبا ویڈیوز بناکر اہل خانہ کو ہراساں کر نے والی 2 گھریلو خواتین ملازم گرفتار