At least three decades ago کم ازکم تین عشرے قبل

                       کم ازکم تین عشرے قبل



 ماحولیاتی ماہرین نے چیخ چیخ کر گلا بٹھانا شروع کیا کہ ہم موسم کے رتھ پر سوار تیزی سے میدانِ حشر کی جانب رواں ہیں تو ہم نے کہا یہ سائنسداں تو ہوتے ہی پاگل ہیں۔ انھیں دھمکانے کے سوا کوئی کام نہیں آتا۔جب پانچ برس پہلے پہلی خبر آئی کہ انٹارکٹیکا میں درجہِ حرارت بیس درجہ سنٹی گریڈ کی سطح پر آنے کے سبب لاکھوں برس پرانی برف سے ڈھکی چٹانیں ننگی ہو رہی ہیں تو ہم نے کہا ہنوز انٹارکٹیکا دور است۔ 




جب گزشتہ برس کینیڈا اور امریکا کے مغربی ساحل پر وینکوور اور سیاٹل کے اضلاع میں درجہِ حرارت نے پہلی بار پینتالیس ڈگری سنیٹی گریڈ کا ریکارڈ قائم کیا تو ہم نے فرض کر لیا کہ یہ تو محض حسنِ اتفاق ہے۔ 


جب پچھلے سال برمنگھم میں عالمی ماحولیاتی سربراہ کانفرنس کے موقع پر اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ شاید ہمارے ہاتھ سے وقت نکل چکا ہے ، درجہِ حرارت میں تیز رفتار تبدیلی بتا رہی ہے کہ اب سے آٹھ برس بعد دنیا کے کئی خطوں میں زندگی ناقابلِ برداشت ہو جائے گی۔ ہم نے کہا بڈھا سٹھیا گیا ہے۔ایسے تھوڑی ہوتا ہے۔ 


مگر آج کا موسمِ بتا رہا ہے کہ کوئی سائنسداں یا خطرے کا بگل بجانے والا مدبر نہیں بلکہ ہم سٹھیائے ہوئے ہیں۔ مجھے وہ خدائی فرمان بے طرح یاد آ رہا ہے کہ ’’ ہم کسی قوم پر عذاب اتارنے سے پہلے اس کے حواس ( عقل ) چھین لیتے ہیں‘‘۔ 


ویسے بھی مصیبت کو تنہا آتے ہمیشہ ڈر لگتا ہے لہٰذا جوڑی یا جھنڈ میں آتی ہے۔پہلے کوویڈ نے دنیا الٹ کے رکھ دی۔پھر روس نے یوکرین پر چڑھائی کر دی۔ یوں عالمی منڈی میں ایندھن اور غدائی اجناس مہنگی ہونے کے سبب ترقی پذیر دنیا کی کمر تہری ہونے لگی۔ اب ہم جیسے پسماندگان کو مون سون کا روپ دھار کر آنے والی آسمانی بلا بہائے لیے جا رہی ہے اور ہرے ہرے کے عادی یورپ و امریکا میں خشک سالی نے پنجے گاڑ دیے ہیں۔ 


آخری دمادم مست قلندر شروع ہو چکا ہے۔مئی اور جون میں پرتگال سے اٹلی تک جنگلات میں آتشزدگی کی خبریں آتی رہیں۔ ہلاکتیں کم ہوئی مگر ہزاروں لوگوں کو محفوظ مقامات پر پہنچانا پڑا۔جو بوڑھے کوویڈ سے بچ نکلے تھے وہ غیر معمولی درجہ حرارت کی تاب نہ لا سکے۔ 


گرمی اتنی بڑھی کہ جولائی میں پرتگال سینتالیس سینٹی گریڈ ، لندن اکتالیس اور نیدر لینڈز چالیس سینٹی گریڈ پر دہک رہا تھا۔جب سے درجہِ حرارت ریکارڈ ہونا شروع ہوا تب سے اب تک مذکورہ مقامات پر معلوم تاریخ میں کبھی اتنی گرمی نہیں پڑی۔ یورپ کے بیشتر ممالک میں انیس سو تیس کے عشرے کے بعد پہلی بار موسمیاتی ایمرجنسی نافذ کرنا پڑ گئی۔ 


درجہِ حرارت اوپر نیچے ہونے کے نتیجے میں پہاڑوں پر بھی برف کم پڑی۔چنانچہ دریاؤں اور جھیلوں میں بھی پانی کم ہونے لگا اور اتنا کم ہو گیا کہ تہوں میں صدیوں سے چھپے آثار نمودار ہونے لگے۔ 


مثلاً یہ تو آپ نے خبروں میں سن ہی لیا ہوگا کہ وولگا کے بعد دوسرا بڑا یورپی دریاِ دینیوب جو جرمنی کے بلیک فاریسٹ سے براستہ آسٹریا ، سلوواکیہ ، ہنگری ، سربیا ، بلغاریہ سے ہوتا ہواتا رومانیہ پہنچ کر بحیرہِ اسود میں جا گرتا ہے۔اس میں پانی کی سطح بعض مقامات پر پندرہ فٹ تک گر گئی ۔چنانچہ دو درجن سے زائد ان جرمن جنگی جہازوں کے ڈھانچے بھی فاش ہو گئے جو دوسری عالمی جنگ کے اواخر میں سوویت یونین کے ہاتھ لگنے کے خوف سے بحیرہ اسود کی جانب فرار ہوتے ہوئے دینیوب میں جگہ جگہ پھنستے چلے گئے۔ 


گزشتہ ماہ کی ریکارڈ گرمی میں دینیوب کے پانی کا درجہِ حرارت جرمنی کے بویریا صوبے میں پچیس ڈگری سنٹی گریڈ تک تپ گیا۔چنانچہ آبی آکسیجن کی قلت کے سبب دینیوب کی ٹراؤٹ اور دیگر مخلوق بقائی خطرے سے دوچار ہو گئی۔ 


جرمنی کی پہچان دریاِ رائن سوئٹزرز لینڈ میں کوہ آلپس سے شروع ہو کر لینچٹسٹائین کو چھوتا آسٹریا سے جرمنی میں داخل ہو کر براستہ فرانس نیدرلینڈز پہنچ کر بارہ سو تیس کلومیٹر کے سفر میں ڈھویا آبی بوجھ بحیرہ شمالی میں جا پھینکتا ہے۔چند ہفتے پہلے یہی رائن اتنا گہرا اور رواں تھا کہ تیل ، گیس اور کوئلہ بردار بڑے بحری جہاز بھی آسانی سے گذر جاتے تھے۔ پچھلے ایک ماہ سے دریاِ رائن میں قلتِ آب کے سبب چھوٹے بحری جہازوں کی آمدورفت بھی محال ہو گئی ۔جب کہ رائن کا وہ حصہ جو نیدرلینڈز میں داخل ہوتا ہے اس میں پانی بطور تلچھٹ ہی باقی ہے اور ہلکی پھلکی ہاؤس بوٹس بھی کیچڑ میں پھنسی معذور کھڑی ہیں۔ 


جرمنی اور سلوواکیہ میں بہنے والے دریاِ ایلب کے ڈوبے کنارے ابھر آنے سے سیکڑوں برس پرانے وہ پتھر بھی سامنے آ گئے جو پرکھوں نے قحط سالی سے خبردار کرنے کے لیے لگائے تھے۔ان میں سے ایک پتھر پر سولہ سو سولہ میں کندہ کی گئی یہ تحریر صاف صاف پڑھی جا سکتی ہے کہ ’’ جب تم مجھے دیکھو تو اپنے نصیب پے ضرور رونا ‘‘۔ 


شمالی اٹلی میں پچھلے ستر سال کی بدترین خشک سالی کے سبب شمالاً جنوباً بہنے والا سب سے بڑا دریاِ پو معاون ندی نالے خشک ہونے کی وجہ سے جانکنی کے عالم میں ہے۔سطحِ آب با ایں جا رسید کہ دوسری عالمی جنگ میں نہ پھٹنے والا ہزار پونڈ کا ایک سالم بم بھی اب دریا کی تہہ سے نکال لیا گیا ہے۔ 


فرانس کی ستر فیصد بجلی جوہری ری ایکٹرز سے پیدا ہوتی ہے۔اکثر ری ایکٹرز آبی کناروں پر ہیں تاکہ ری ایکٹر کے مرکزی حصے کو مسلسل ٹھنڈا رکھا جا سکے۔لیکن دریائے غون اور گرونے کے پانی کا درجہِ حرارت پچیس ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کرنے کے سبب ایک ایٹمی ری ایکٹر کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے بھی یہ دریائی پانی استعمال نہ ہو سکا۔جب کہ دریا لوغوو میں پانی اتنا گھٹ گیا کہ لوگ باگ پل استعمال کرنے کے بجائے پیدل ہی دریا عبور کر رہے ہیں۔ 


فرانس کے ہمسائے اسپین کا حال اور برا ہے۔ دریائی پانی کی مقدار چالیس فیصد رہ گئی ہے اور شمالی صوبوں میں اتنی خشک سالی ہے کہ بہت سے دیہاتوں کے لیے پینے کے پانی کی راشننگ کرنا پڑ گئی۔ 


ہمارے سابق آقا برطانیہ کا حال بھی اچھا نہیں۔گلوسٹر شائر کاؤنٹی سے شروع ہو کر لندن سے گذرتا رودبارِ انگلستان میں گرنے والا ٹیمز پچھلے ڈیڑھ ماہ سے اپنی ہی پیاس نہیں بجھا پا رہا۔ 


جب کہ سمندر کے دوسری جانب امریکا میں بھی حال بے حال ہے۔وسطی اور جنوبی ریاستوں پر خشک سالی کا آسیب چھایا ہوا ہے۔ سب سے بڑی قومی مصنوعی جھیل میڈ کی رگِ حیات دریا کولوریڈو ہے۔یہ جھیل ریاست نیوادا ، کیلی فورنیا ، ایریزونا اور نیو میکسیکو کے دو کروڑ شہریوں کو میٹھا پانی فراہم کرتی ہے۔ 


اب یہ جھیل میڈ سکڑ رہی ہے۔ آبی گنجائش کا صرف ستائیس فیصد پانی جھیل میں باقی ہے۔چنانچہ اس کی تہہ سے شراب کے بیرلز میں بند وہ لاشیں بھی نکل رہی ہیں جنھیں پچاس کلومیٹر پرے عظیم ترین عالمی جوا خانے لاس ویگاس کی چکاچوند کے پیچھے متحرک مافیاؤں نے مخبری یا بے ایمانی کے جرم میں ہلاک کر کے تیس چالیس برس پہلے اس جھیل میں پھینک دیا۔ایک لاش کی کنپٹی میں تو گولی کا سوراخ بھی واضح ہے۔                                                        

حجم کے اعتبار سے سب سے بڑی امریکی ریاست ٹیکساس کا ستاسی فیصد رقبہ معتدل یا انتہائی خشک سالی کی زد میں ہے۔ریاست کے وسط میں بہنے والے ایک دریا کے سوکھنے کے بعد اس کی تہہ پر ایک سو تیرہ ملین برس پرانے ڈائینوسار کے قدموں کے نشانات دوبارہ دکھائی دینے لگے ہیں۔ 


پہلے ہم نے کرہِ ارض کے ساتھ جی بھر کے بدمعاشی کی۔اب کرہِ ارض ہمیں ڈبو کر یا پیاسا مار کے انتقام لے رہا ہے۔یہ محض گزشتہ یا موجودہ برس کی کوئی اتفاقیہ حقیقت نہیں ہے۔ 


اپنے ملک عزیز کا حال ہی دیکھ لیں۔ فروری 28 کو درجہ حرارت 36 سینٹی گریڈ اور 22 جون (جو سال کا سب سے بڑا اور عموما سب سے گرم دن ہوتا ھے) کو درجہ حرارت 22 سینٹی گریڈ تھا۔ یاد ھے ناں کہ اس سال اچانک پڑی گرمی نے گندم کے ساتھ کیا حال کیا تھا؟


مگر اب بھی ہم ماننے کو تیار نہیں کہ حیاتیاتی بقا کا جہاز اب آخر تک ہچکولے دینے والے طوفانِ مسلسل میں گھر چکا ہے۔یہی مستقبل کا نیا معمول ہے۔بھلے اچھا لگے یا برا،فطرت کے ٹھینگے سے۔ 


پاکستان میں جسے عذاب، آزمائش اور آفت کہتے ہیں، گورے اُسے مِس مینجمنٹ کہتے ہیں                           

کیوں ڈھونڈھ رہے ہو کسی دیوار کا سایہ

یہ دھوپ تو ہر رخ سے پریشان کرے گی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے