When the Caliphate of Banu Abbas was established, all the leading members of the Umayyad family went into hiding to avoid punishment.
جب بنو عباس کی خلافت قائم ہوئی تو اموی خاندان کے تمام سرکردہ افراد سزاوں سے بچنے کے لیے روپوش ہو گئے۔
لیکن بنو عباس کے لوگ بھی بنو امیہ کے بچے کھچے افراد کی تلاش کر رہے تھے۔
ان بچ نکلنے والے افراد میں اموی خلیفہ سلمان بن عبدالملک کا بیٹا ابراھیم بھی شامل تھا۔
پہلے عباسی خلیفہ ابوالعباس سفاح کے ایک قریبی آدمی نے خلیفہ سے ابراھیم بن سلیمان کی سفارش کی اور اس کو جان کی امان دلوائی۔ تو خلیفہ نے اس کو عزت و اکرام سے نوازا اور اپنے خواص میں شامل کر لیا۔
ایک دن خلیفہ نے ابراھیم بن سلیمان سے کہا کہ تم کافی عرصہ تک اپنی جان بچانے کے لیے چھپتے پھرے، اس عرصہ میں اگر کوئی دلچسپ اور سبق آموز واقعہ تمہارے ساتھ پیش آیا ہو تو سناو ۔
ابراھیم نے خلیفہ کی فرمائش پر جو واقعہ سنایا اس کو پڑھ کر عربوں کی مہمان نوازی اور عہد و پیمان کے احترام کی پختگی کا اندازہ ہوتا ہے۔
ابراھیم بن سلیمان نے اپنا واقعہ کچھ اس طرح بیان کیا کہ "میری تلاش اور قتل کا شاہی فرمان جاری ہو چکا تھا اس لیے لوگ میری تلاش میں تھے اور میں ان سے چھپتا پھر رہا تھا اسی دوران کوفہ جا پہنچا۔
کوفہ میں کسی کو جانتا نہیں تھا اور لوگوں کی نگاہیں چبھتی ہوئی محسوس ہوتی تھی جیسے وہ مجھے قتل کر دینا چاہتے ہوں۔ اسی دوران مجھے ایک بڑا گھر نظر آیا جس کو دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ مالک مکان کوئی صاحب اثر و رسوخ آدمی ہے، میں غیر ارادی طور پر مکان میں گھس گیا۔ اس کا صحن بہت بڑا تھا ، وہاں پر مجھے ایک بہت باوقار شخص اجلے کپڑے پہنے نظر آیا۔
اس نے مجھے دیکھا تو پوچھا کہ
تم کون ہو اور کیا چاہتے ہو ؟
میں نے کہا
میں ایسا آدمی ہوں جو موت سے ڈرتا پھر رہا ہے اور تم سے پناہ کا طلب گار ہے۔
اس نے مجھے اندر بلایا اور گھر کے ایک کمرے میں ٹھہرا دیا۔ صاحب خانہ کا سلوک بہت اچھا تھا۔ روزانہ میرے لیے انواع و اقسام کے کھانے چنے جاتے۔ اس نے کبھی مجھ سے میرے بارے میں کچھ نہ پوچھا کہ میں کون ہوں یا میرا جرم کیا ہے جس کے لیے میں چھپا پھرتا ہوں یا میری تلاش میں کون لوگ ہیں۔
ہاں ایک بات میں نے اچھی طرح نوٹ کی کہ میرا میزبان روزانہ صبح سویرے کہیں نکل جاتا اور ظہر کے وقت واپس آتا۔
ایک دن میں نے پوچھ ہی لیا کہ تم کہاں جاتے ہو ؟
تو اس نے بتایا کہ میرے باپ کو ابراھیم بن سلیمان بن عبدالملک نے قتل کیا تھا اور مجھے اطلاع ملی ہے کہ وہ ان دنوں یہاں کہیں آس پاس ہی چھپا ہوا ہے ، میں روزانہ اسی کی کھوج میں نکلتا ہوں تاکہ اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لے سکوں۔
جونہی میں نے یہ بات سنی میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے، مجھے اپنی موت یقینی نظر آنے لگی۔ میں نے اس سے اس کے والد کا نام پوچھا تو اس کے والد کا نام سن کر اس کی بات سچ ثابت ہوئی۔
میں نے اس سے کہا کہ تم بہت دنوں سے میری میزبانی کر رہے ہو اب وقت آ گیا ہے کہ میں تمہارے اس احسان کا حق ادا کر دوں۔ تم نے میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا ہے تو اس کا بدلہ بھی اچھا ہونا چاہیے۔ میں بتاتا ہوں کہ تمہیں جس شخص کی تلاش ہے وہ کہاں ہے۔
میں نے کہا میرے معزز میزبان میں ہی وہ آدمی ہوں جس کی تم تلاش کر رہے ہو ، تمہارے باپ کا قاتل تمہارے سامنے کھڑا ہے ، آگے بڑھو اور اپنا بدلہ لے لو۔
اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ کہنے لگا کہ لگتا ہے مسلسل چھپے رہنے اور گھر والوں کی جدائی کی وجہ سے تمہیں اب موت بہتر لگنے لگی ہے۔
میں نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں بلکہ میں نے ہی تمہارے باپ کو فلاں دن اور فلاں جگہ پر قتل کیا تھا۔
جب اس نے اپنے باپ کے قتل۔کی تفصیل سنی تو اس کو یقین ہو گیا اور اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آنکھوں سے غیض و غضب ٹپکنے لگا۔
وہ کافی دیر تک خلا میں گھورتا رہا جیسے کچھ سوچ رہا ہو، پھر یوں لگا جیسے وہ کسی فیصلہ پر پہنچ گیا ہو اور اس نے مجھے کہا کہ
تم ایک دن قادر مطلق اور منصف اعلی کے سامنے میرے والد سے ضرور ملو گے اور وہ تم سے تمہارے ظلم اور خون نا حق کا بدلہ لے گا۔ اب رہا میرا معاملہ تو میں نے تمہیں پناہ دی ہے اور تمہاری حفاظت کا ذمہ لیا ہے اور میں وعدہ خلافی کو اپنی توہین سمجھتا ہوں۔ لیکن اب میں چاہتا ہوں کہ تم میری نظروں سے دور چلے جاو کیونکہ ممکن ہے کہ میں کسی وقت اپنے نفس پر قابو نہ پا سکوں اور تمہیں قتل کر دوں۔
پھر اس نے ایک ہزار دینار میری طرف بڑھا دیے اور کہا کہ یہ رقم بطور زاد راہ لے لو اور چلے جاو۔ مجھے اس سے بہت شرم آئی اور میں نے دینار لینے سے انکار کر دیا اور وہاں سے چل دیا۔"
امیر المومنین یہ میری زندگی کا سب سے انوکھا واقعہ ہے کہ ایک شخص نے یہ جان لینے کے باوجود کہ میں اس کے باپ کا قاتل ہوں مجھے جانے دیا۔
0 تبصرے