Ticker

6/recent/ticker-posts

Ad Code

Responsive Advertisement

حماس کی جانب سے اسرائیل پر حالیہ حملے کے بعد غزہ پر اسرائیلی جنگی جہازوں نے حملہ کیا ہے بلوچستان voi

 حماس کے ’طوفان الاقصیٰ‘ آپریشن میں 250 اسرائیلی جبکہ غزہ پر جوابی فضائی حملوں میں 232 فلسطینی شہید، متعدد اسرائیلی شہری اور فوجی یرغمال

hamas balochistan voi
حماس کی جانب سے اسرائیل پر حالیہ حملے کے بعد غزہ پر اسرائیلی جنگی جہازوں نے حملہ کیا ہے

اسرائیل میں فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے ’طوفان الاقصیٰ‘ آپریشن اور اس کے جواب میں غزہ پر اسرائیلی بمباری سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 480 سے بڑھ گئی ہے جبکہ 1900 سے زیادہ افراد ان کارروائیوں میں زخمی ہوئے ہیں۔

ان حملوں کے بعد حماس کے رہنما محمد دیف کا کہنا تھا کہ ’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اب بہت ہو چکا ہے‘ جبکہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتن یاہو نے کہا ہے کہ ان کا ملک حالتِ جنگ میں ہے اور حماس کو ان حملوں کی وہ قیمت چکانا پڑے گی جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ ’اسرائیل کو اپنا اور اپنے شہریوں کا تحفظ کرنے کا حق ہے۔

اسرائیل کی ایمرجنسی سروسز کا کہنا ہے کہ سنیچر کو فلسطینی عسکریت پسندوں کی جانب سے اسرائیلی علاقوں میں راکٹ داغے جانے اور زمینی حملوں میں مرنے والے اسرائیلیوں کی تعداد کم از کم 250 ہے جبکہ 900 سے زائد افراد زخمی ہوئے چکے ہیں

اسرائیلی فوج نے اپنے ہزاروں رضاکاروں کو ڈیوٹی پر طلب کر لیا ہے اور خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ اب غزہ میں زمینی کارروائی شروع کرے گی۔

اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان گذشتہ مئی کے بعد سے یہ سب سے زیادہ پرتشدد کشیدہ صورتحال قرار دی جا سکتی ہے۔

حماس کا ’طوفان الاقصیٰ‘ کیسے شروع ہوا

hamas balochistan voi 2

حماس سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند سنیچر کو علی الصبح موٹرسائیکلوں کے علاوہ پیرا گلائیڈرز اور کشتیوں کا استعمال کرتے ہوئے غزہ کی پٹی کے علاقے سے اسرائیلی حدود میں داخل ہوئے۔ تاحال یہ واضح نہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں مسلح افراد دنیا کے سخت ترین حفاظتی انتظامات والی سرحد عبور کرنے میں کیسے کامیاب رہے۔

اس موقع پر اسرائیلی علاقوں پر ہزاروں راکٹ داغے گئے جن میں سے کچھ مقبوضہ بیت المقدس اور تل ابیب میں بھی گرے۔ حماس ٹی وی کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر 5000 کے علاوہ مزید 2000 راکٹ فائر کیے گئے جن کا حماس کے چیف کمانڈر نے اس آپریشن کے آغاز میں اعلان کیا تھا۔

اسرائیلی میڈیا کے مطابق حماس کے جنگجوؤں کے اسرائیل میں داخل ہونے کے بعد ملک کے جنوبی علاقوں میں ان کی اسرائیلی فوجیوں سے مسلح جھڑپیں ہوئیں۔

اسرائیلی فوج کے مطابق اس کے جواب 22 مقامات پر حماس کے حملہ آوروں کا مقابلہ کر رہے ہیں

غزہ کے قریب واقع اسرائیلی آبادیوں میں مقیم افراد نے اسرائیل کے مختلف نیوز چینلز کو فون پر بتایا کہ عسکریت پسند ان کے قصبوں اور دیہات میں گھس آئے اور وہ اپنے مکانات میں محصور ہو کر رہ گئے۔

انٹرنیٹ پر موجود غزہ سے ایک میل کے فاصلے پر واقع سدیروت نامی قصبے کی ایک ویڈیو میں مسلح فلسطینی نوجوانوں کو اسرائیلی فوجیوں سے فائرنگ کا تبادلہ کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

بی بی سی کے نامہ نگار جیرمی بیکر کے مطابق فلسطینی عسکریت پسندوں نے متعدد فوجی چوکیوں پر حملہ کیا۔

سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی ویڈیوز میں عسکریت پسندوں کو ایک نامعلوم اڈے کے اندر دکھایا گیا ہے، جس میں مرکاوا ٹینک (اسرائیل کی بری فوج میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا ٹینک) سمیت اسرائیلی گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ غزہ کی کچھ ویڈیوز میں بھی فلسطینیوں کو اسرائیلی فوج کی گاڑیاں چلاتے دیکھا جا سکتا ہے۔

مصنف اور صحافی گیڈون لیوی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب پہلا راکٹ گرا تو میں پارک میں جاگنگ کر رہا تھا، ااس وقت شور شرابہ دہلا دینے والا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ حملوں کے بعد جب وہ گھر سے باہر نکلے تو ’سڑکیں ویران تھیں۔ ریستوراں، کیفے سب کچھ بند پڑے ہیں اور فضا خوف سے بھری ہوئی ہے۔‘

دی گارڈین کے مطابق غزہ میں حماس کے فوجی کمانڈر محمد ضیف نے ایک بیان میں مسجد اقصیٰ کو آزاد کرانے کے لیے ایک نئے آپریشن کے آغاز کا اعلان کیا اور کہا کہ اسرائیل کے خلاف حماس کی نئی کوششوں کا 'یہ صرف پہلا مرحلہ ہے۔‘

انھوں نے کہا: ’ہم نے دشمن کو متنبہ کیا کہ وہ مسجد اقصیٰ کے خلاف اپنی جارحیت کو ختم کرے۔۔۔ بغیر کسی جواب کے دشمن کی جارحیت کا دور اب ختم ہو گیا ہے۔ میں مغربی کنارے اور گرین لائن کے اندر ہر جگہ فلسطینیوں سے بلا روک ٹوک حملہ کرنے کی اپیل کرتا ہوں۔ میں ہر جگہ مسلمانوں سے حملہ کرنے کا مطالبہ کرتا ہوں۔‘

اسرائیلی فوجی اور شہری یرغمال بنا لیے گئے

اسرائیل نے کیا جوابی کارروائی کی؟اسرائیلی انٹیلی جنس کی ’ناکامی‘

بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ فلسطینی عسکریت پسند گروہ حماس نے درجنوں اسرائیلی باشندوں کو یرغمال بھی بنا لیا ہے جن میں عام شہری اور فوجی دونوں شامل ہیں۔

اسرائیلی ڈیفینس فورس کے ایک ترجمان نے جھڑپوں میں کچھ فوجیوں کی ہلاکت اور فوجیوں کے علاوہ شہریوں کو یرغمال بنائے جانے کے تصدیق کی ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی فوج کے کسی جرنیل کے اغوا کی خبر درست نہیں۔

خود کو عسکریت پسند گروہ القدس بریگیڈ کا ترجمان ظاہر کرنے والے ابو حمزہ کی جانب سے ٹیلی گرام پر جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اُن کے جنگجوؤں نے ’متعدد‘ اسرائیلی فوجیوں کو یرغمال بنا لیا ہے۔‘

حماس کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس 53 ’جنگی قیدی‘ ہیں جن میں اسرائیلی فوج کے سینیئر افسر بھی شامل ہیں اور ان میں سے بہت سوں کو ان سرنگوں میں رکھا گیا ہے جنھیں ماضی میں اسرائیل نشانہ بناتا رہا ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں سے کچھ یرغمالیوں کو غزہ کی پٹی کے قریب کچھ چھوٹے قصبوں میں رکھا گیا ہے جبکہ کچھ لوگوں کو غزہ لے جایا گیا ہے جو کہ ایک غیر معمولی صورتحال ہے۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ دو مقامات پر سپیشل فورسز یرغمالیوں کی رہائی کے لیے کارروائی کر رہی ہیں۔

یروشلم میں بی بی سی کے مشرق وسطی کے بیورو کے سربراہ جو فلوٹو کا کہنا ہے ’ہم سمجھتے ہیں کہ حماس نے فوجی اور سویلین دونوں طرح کے درجنوں افراد کو یرغمال بنایا ہے اور یہ بہت سے اسرائیلیوں کے لیے ایک ڈراؤنا منظر نامہ ہے۔‘

فلسطینی عسکریت پسند گروہ ماضی میں یرغمالیوں کو اسرائیل کے زیر قبضہ عسکریت پسندوں کی رہائی کے لیے سودے بازی کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے۔

اسرائیل نے سنہ 2011 میں ایک ہزار سے زائد فلسطینی قیدیوں کو رہا کر کے اپنے فوجی ’گلاد شیلت‘ کی رہائی کو یقینی بنایا تھا ان میں سے تقریبا 200 افراد کو اسرائیل کے اندر حملوں کی منصوبہ بندی یا حملے کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

اسرائیل میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ ’بی سیلیم‘ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جون میں 4499 فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں قید تھے۔ ان میں غزہ کی پٹی سے تعلق رکھنے والے 183 افراد بھی شامل تھے۔

اسرائیل کی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے حماس کے راکٹ حملوں کے جواب میں غزہ میں حماس کے اہداف پر فضائی حملے کیے ہیں جن میں درجنوں طیارے حصہ لے رہے ہیں۔

فوجی حکام کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں حماس کے 17 عسکری کمپاؤنڈز کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

اسرائیلی طیاروں نے غزہ شہر کے مرکز میں واقع ایک 11 منزلہ عمارت کو بھی بمباری کر کے تباہ کر دیا ہے۔ اس عمارت میں حماس کے ریڈیو سٹیشن قائم تھے۔ حماس کا کہنا ہے کہ اس حملے کے بعد اس نے اسرائیلی علاقے پر مزید 150 راکٹ داغے ہیں۔

طبی امداد فراہم کرنے والے عالمی ادارے ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کا کہنا ہے کہ غزہ میں دو ہسپتالوں پر اسرائیلی حملوں میں ایک نرس اور ایک ایمبیولینس ڈرائیور بھی مارا گیا ہے۔

غزہ کی پٹی میں واقع پناہ گزین کیمپ کے رہائشی سعید شعیب نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اسرائیلی فوج ہم پر مسلسل بمباری کر رہی ہے۔ میں آپ سے بات کرتے ہوئے بھی کسی اسرائیلی راکٹ کا نشانہ بن سکتا ہوں‘۔

ان کا کہنا تھا ’(سنیچر کی) صبح ہماری آنکھ غزہ پر داغے گئے راکٹوں کی آواز سے کھلی تھی۔ ہمارے پاس چھپنےکی کوئی جگہ نہیں اور یہاں کوئی بھی مقام محفوظ نہیں سو ہم اپنے مکان میں ہی کھڑکیوں سے دور ہو کر بیٹھے ہیں‘۔

حماس کی کارروائی کے بارے میں سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اس زمین کے اصل مالک ہیں۔ ذرا سوچیں کہ اگر اسرائیل نے 1948 میں آپ کی زمین پر قبضہ کیا ہوا، آپ کے خاندان کو ہلاک کر دیا ہو، خواتین اور بزرگوں کو نشانہ بنایا ہو۔ غزہ 17 برس سے محاصرے میں ہے اور ہزاروں فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔ جب مزاحمت کرنے والے جواب دیں گے تو کسی کو بھی کیسا لگے گا‘۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسرائیل کے وزیرِ توانائی کا کہنا ہے کہ ان کا ملک غزہ کو بجلی کی فراہمی بھی معطل کر سکتا ہے۔

اس سے قبل اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے ایک ویڈیو بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم حالتِ جنگ میں ہیں‘ اسرائیل کے وزیر دفاع یواو گیلنٹ نے کہا ہے کہ حماس نے ’ایک سنگین غلطی‘ کی ہے اور یہ کہ ’اسرائیل کی ریاست یہ جنگ جیت جائے گی‘۔

دوسری جانب فلسطینی صدر محمود عباس کا کہنا ہے کہ ان کے عوام کو ’آبادکاروں اور قابض فوجیوں کی دہشت‘ کے خلاف اپنا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے۔


فلسیطینی صدر رام اللہ میں فلسطینی اتھارٹی کے اعلیٰ حکام کے ساتھ ایک ہنگامی اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔


ان کا کہنا تھا ’ہمارے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت‘ ہے۔ انھوں نے فلسطینی عوام کے اس حق پر زور دیا کہ وہ آبادکاروں کی ’دہشت گردی اور قابض افواج‘ کے خلاف اپنا دفاع کریں۔


حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے کو اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسی کی ناکامی بھی قرار دیا جا رہا ہے۔

بی بی سی کے نامہ نگار فرینک گارڈنر کے مطابق اسرائیل کے پاس مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ بڑی انٹیلی جنس سروسز موجود ہیں لیکن شین بیت، اسرائیلی انٹیلی جنس موساد، اس کی بیرونی خفیہ ایجنسی اور اسرائیلی دفاعی افواج حتیٰ کہ کوئی بھی حماس کی جانب سے داغے جانے والے ان میزائلوں اور حملے کے بارے میں جاننے میں ناکام رہا اوریہ امر انتہائی حیران کُن قرار دیا جا رہا ہے۔


نامہ نگار کے مطابق ان اداروں کے مخبر اور ایجنٹ فلسطینی عسکریت پسند گروہوں کے ساتھ ساتھ لبنان، شام اور دیگر جگہوں پر بھی موجود ہیں۔ انھوں نے ماضی میں عسکریت پسند رہنماؤں کا قتل عام کیا ہے اور وہ ان کی تمام نقل و حرکت کو قریب سے جانتے ہیں۔


اس کے علاوہ غزہ اور اسرائیل کے درمیان سرحدی باڑ کے ساتھ ساتھ کیمرے، گراؤنڈ موشن سینسر اور فوج کا باقاعدگی سے گشت بھی ہوتا ہے۔ خاردار تاروں کی باڑ کو اس حملے میں ہونے والی دراندازی کو روکنے کے لیے ایک ’سمارٹ بیریئر‘ سمجھا جاتا رہا ہے۔

اسرائیلی حکام نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایک بڑی تحقیقات شروع ہو چکی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس میں ہونے والے سوالات برسوں تک جاری رہیں گے۔


غزہ کی جانب سے اسرائیل کی طرف مسلسل راکٹ داغے جا رہے ہیں

فلسطین کے عسکریت پسند گروہ کی جانب سے اسرئیل پر ہونے والے حملے پر عالمی دُنیا کی جانب سے بھی رد عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے فلسطینی عسکریت پسند گروہ حماس کی جانب سے اسرائیل پر کیے جانے والے حملوں کے بارے میں کہا ہے کہ امریکی محکمہ دفاع اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کرے گا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع اور شہریوں کو تشدد اور دہشت گردی سے بچانے کے لیے جس بھی قسم کی امداد کی ضرورت ہے وہ فراہم کی جائے گی۔

انھوں نے کہا کہ ’میں اسرائیل میں ہونے والی پیش رفت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہوں۔ اسرائیل اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے اور اُس کے لیے ہماری حمایت اٹل ہے، اور میں گھناؤنے حملے میں اپنی جانیں گنوانے والوں کے اہل خانہ کے ساتھ تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔‘


بلوچستان voi

فرانس کے صدر ایمنول میکرون نے اسرائیل پر ان حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی اُنھوں نے ’ان حملوں میں نشانہ بننے والے لوگوں اُن کے اہل خانہ اور متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔‘

جرمنی کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ’عام شہریوں کے خلاف راکٹ اور مزائل داغنے کے اس سلسلے کو فوری طور پر بند ہونا چاہیے۔‘

یورپی کمیشن کی چیئرمین نے اسرائیل پر ہونے والے اس حملے کو ’دہشت گردی کی ایک انتہائی گھناؤنی شکل قرار دیا۔‘

روسی نائب وزیر خارجہ کے مطابق ’یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم ہمیشہ تحمل کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘

بین الاقوامی امدادی ادارے ریڈ کراس (آئی سی آر سی) نے تنازع میں شامل فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ ’بین الاقوامی انسانی قوانین کے تحت اپنی قانونی ذمہ داریوں کا احترام کریں‘ اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ شہریوں اور طبی عملے کا تحفظ کیا جائے۔

یورپی ڈپلومیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے شہریوں کو یرغمال بنائے جانے کی خبروں کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ’یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور یرغمال بنائے جانے والوں کو فوری طور پر رہا کیا جانا چاہیے۔‘


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے