(تھیلیسیمیا) سے متاثرہ بچوں کو ساری زندگی علاج اور خون کی منتقلی کا عذاب جھیلنا پڑتا ہے۔ اس بیماری سے بسا اوقات جلد موت واقع ہوجاتی ہے۔پاکستان میں 1 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو یہ مرض لاحق ہے،
اور ہر سال 5 ہزار سے زیادہ بچے اس بیماری کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ مریضوں کو مسلسل خون کی منتقلی کی ضرورت پڑتی ہے-مریضوں کی زندگیوں کا معیار اور ان کی زندگی بڑھانے کی کوشش کی جاے غریب مریض بچوں کو امید دلائی جائے اور ان کی مشکلات کم کیا جائے۔
بلوچستان ڈیولپمنٹ فورم اپنی مدد اپ کے تحت ان مریضوں کی مشکلات کو کم کرنے کی غرض سے کوشش کر رہا ہے قلعہ عبداللہ سے تعلق رکھنے والے ایک باپ کے تین بچے اس مرض میں مبتلا ہیں اور کیونکہ وہ قلع عبداللہ سے ائے ہوئے ہیں تو یہاں ان کا گزارا انتہائی مشکل ہے تینوں بچے سول میں ایڈمٹ ہیں،
بلوچستان ڈیویلپمنٹ فورم کا ایک وفد ایڈیشنل سیکرٹری جنرل ملک شعیب علی اعوان سیکرٹری فائنانس سلمان نظامی اور ممبر بلال خان کی اس کاوش کو سراہتے ہوئے چیئرمین جانان خان کا شکریہ ادا کرتے ہیں جن کی ہدایت پر اس خاندان کی مدد ہو پائی اور یہ مدد بلوچستان ڈیویلپمنٹ فورم کے تمام ممبران کے تعاون سے کی گئی تمام ممبران کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اس ثواب کے کام میں ہم سب نے اپنا حصہ ڈالا۔
مگر بلوچستان میں بسنے والے تمام مغیر حضرات کو اس بات کی اگاہی فراہم کرنا چاہتا ہوں کہ ان بچوں کو ہماری اور اپ کی سخت ضرورت ہے بلوچستان میں بسنے والے تمام مغیر حضرات سے درخواست کروں گا کہ خدارا خود سامنے ا کر ایک بچے کی ذمہ داری اٹھائیں
کیونکہ مہینے میں ایک یا دو مرتبہ اس بچے کو دوبارہ خون لگوانے کے لیے انا پڑتا ہے اور بہت سے بچے بلوچستان کے دور دراز اضلاع سے اتے ہیں اور ایک مہینے میں دو دن نکالنا کسی بھی شخص کے لیے کوئی بڑا کام نہیں
تو بلوچستان میں بسنے والے تمام حضرات کو درخواست کروں گا کہ ایک بچے کی ذمہ داری اٹھائیں مگر ذمہ داری اس طرح لیں کہ وہ دو دن اپ خود ان کے ساتھ ہوں اپ کے پاس ان کا کانٹیکٹ نمبر ہو ہر چیز اپ کے پاس ہو اپ کسی بھی تنظیم کو ڈونیشن دینے کے بجائے اس ثواب کے کام کو خود کریں
یہ درخواست ہے کہ ان بچوں کو ہماری ضرورت ہے اور ہماری بدقسمتی کے بلوچستان میں نہ کوئی ایسی تنظیم ہے اور نہ ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو دوسروں کے لیے جینا فخر سمجھتے ہیں اور جو لوگ پائے جاتے ہیں وہ کہیں نہ کہیں بلوچستان میں اور بلوچستان کے رہن سہن کے کی وجہ سے سامنے انے سے کتراتے ہیں کیونکہ اپ کو پتہ ہے کہ ثواب اور خیر کے کام کرنے والوں کے خلاف شیطان 24 گھنٹے ڈیوٹی پر مامور رہتا ہے
اور بلوچستان میں رہنے والے دنیا سے تھوڑے الگ ہی ہیں وہ کہتے ہیں سر جائے اکڑ نہ جائے تو اس وجہ سے وہ خیر کا کام کرتے ہوئے بھی پریشان ہیں کیونکہ بلوچستانی سب کچھ سہ سکتا ہے اپنے خلاف کی گئی بات میرے نظریے کے مطابق نئی سہ سکتا اگر وہ حق پر ہے اور ناحق اور جھوٹا انسان تو پوری دنیا میں ہر چیز سہ سکتا ہے تو اس لیے درخواست کروں گا کہ بلوچستان میں بسنے والے خدارا ان بچوں کا ساتھ دیں۔
0 تبصرے